کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مکافات عمل ہے، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی صحرانوردی ہے جبکہ کچھ کا یہ ماننا ہے کہ ان لوگوں پر یہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تذلیل کا محض ایک اشارہ ہے ۔ حالیہ چند ایام کے دوران کئی ایک علیحدگی پسند اور آزادی کے حامی افراد جنہوںنے ۹۰ء میں عسکریت کی بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگاکر خودکو بڑے سیاسی قدآور کے طور پیش کرنا شروع کیاا ور عسکری تنظیموں کی پشت پناہی میں قومی دھارے سے وابستہ سیاسی کارکنوں،لیڈروںا ور عہدیداروں کے سروں پر بندوق رکھ کر ان سے ’’اظہار لاتعلقی‘‘ کے حلف نامے حاصل کرنے کی تحریک چلائی آج خود آزادی اور علیحدگی پسندی سے اپنی لاتعلقی کا اشتہار بنے نظرآرہے ہیں۔ چلئے اور کچھ نہیں تو ان کے اس اظہار لاتعلقی کو مکافات عمل تک ہی محدود رکھتے ہیں۔
اب تک تقریباً ایک درجن علیحدگی پسند تنظیموں نے علیحدگی تحریک سے اپنی لاتعلقی کااعلان کرتے ہوئے ملک کے آئین کے تئیں اپنی وابستگی اور وفاداری کا یہ کہکر حلف نامہ اُٹھایا ہے کہ ان کی تنظیم حریت کانفرنس عوام کی آرزئوں اور خواہشات کی تکمیل کی سمت میں ناکام رہی ہے۔اب تک دستبرداری کا اعلان کرنے والوں میں جموںوکشمیر اسلامک پولٹیکل پارٹی، جموںوکشمیر مسلم ڈیموکریٹک لیگ، کشمیر فریڈم فرنٹ، پیپلز مومنٹ، ڈیموکریٹک پولٹیکل مومنٹ ،کشمیر فریڈم مومنٹ ، تحریک استقلال، جموںوکشمیر تحریک استقامت ، قابل ذکر ہیں۔
یقین کریں بہت کم لوگ بلکہ محض انگلیوں پر گنے چنے افراد ہی ان تنظیموں سے واقف ہوں گے۔ یہ تنظیمیں کم سے کم ایک یا زیادہ سے زیادہ دو افراد پر مشتمل تھی، انہیں اس لئے وجود بخشا گیا تھاتاکہ حریت کانفرنس کی قیادت دُنیا کو یہ پیغام دے کہ حریت صرف ایک اکائی کا نام نہیں بلکہ درجنوں ہم خیال تنظیموں کا مجمعہ ہے ۔ انہیں باضابطہ تنخواہیں اور دیگر اخراجات اداکئے جاتے رہے ہیںجبکہ ان کا جم گٹھا ضرورت کے مطابق نعرہ بازی کیلئے تھا۔
ان تنظیموں کا وجود ختم کردیاگیا اور ان سے ابستہ ایک دو خودساختہ لیڈران اب قومی دھارے سے وابستہ ہوگئے ہیں اور ملکی آئین کی وفاداری کا علان کررہے ہیں کا بحیثیت مجموعی خیر مقدم کیا جاناچاہئے کیونکہ ایک فرد واحد بھی ہو تو صاف وشفاف تالاب کے پانیوں کو گندہ اور آلودہ کرنے کی طاقت رکھتاہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ عوامی سطح پر ان کا کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے ، نہ یہ اتنے بڑے قدآور سیاسی نیتا ہیں کہ عوام کی سوچ اور طرزعمل پر کسی بھی اعتبار سے اثر انداز ہوسکیں اور نہ ان سے یہ اُمید رکھی جاسکتی ہے کہ قومی دھارے سے وابستہ ہوکر یہ جموںوکشمیر اور اس کے عوام کیلئے اپنے سینوں میں کوئی درد رکھتے ہیں یا کچھ بہتر کرنے کی ان کے اندر صلاحیت اور توانائی ہے۔ ان کی حیثیت سرحدپار کے سابق ملازموں کی سی ہے اور بس!
قومی دھارے سے ان کی اب وابستگی کا خیرمقدم اپنی جگہ لیکن ان کی حیثیت ایکو سسٹم کی بھی رہی ہے۔ انہیں آزاد شہری کے طور اپنی زندگی کا سفر طے کرنے کیلئے جو بھی سہولیت درکا رہے انہیں فراہم کی جانی چاہئے لیکن چور دروازوں یا مستقبل میں کسی بھی نوعیت اور ہیت کی الیکشن پراسیس کے ذریعے انہیں لوگوں پر مسلط کرنے کی کوئی بھی کوشش ناکامی سے ہی ہم کنار ہوسکتی ہے۔ لوگ ان کے رول اور کردار کو فراموش کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ لوگوں کی یاداشت عموماً کمزور تصور کی جاتی رہی ہے لیکن اتنی بھی نہیں کہ وہ اس جبر اور دبدبہ کو بھول چکے ہیں۔
ان کی سرپرستی، ہدایت اور ایما پر زورزبردستی ، دبائو، دھونس ، بھتہ خوری، اغوا اور دیگر معاملات تو کل ہی کی بات ہے ان لوگوں نے آئین کی وفاداری کا حلف نامہ تو اُٹھایا ہے لیکن کیا انہوںنے اپنے رول اور کردارو ں کے حوالوں سے اپنی اپنی وابستگی اور پیش آمدہ معاملات اور واقعات کے تناظرمیں اپنی شرمندگی تو نہ سہی لیکن ندامت اور پچھتاوے کو زبان دی، نہیں، ان کے ہاتھوں جو لوگ متاثر ہوتے رہے ، جن کی حساسیت اور تشخص اور عزت نفس مجروح ہوتا رہا کیا یہ لوگ توقع رکھتے ہیں کہ وہ متاثرین انہیں معاف کریں گے؟قومی دھارے سے وابستگی کا اعلان تو انہوں نے کیا لیکن ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا کہ وہ جو کچھ کرتے رہے وہ کس کے ایما اور کس کیلئے کر تے رہے تھے۔
یہ تصویر کشمیر کا ایک پہلو ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یا رُخ بھی ہے جو کچھ پوشیدہ بھی ہے اور کچھ عیاں بھی ہے۔ قومی دھارے سے وابستہ کچھ جماعتیں بھی دو چہرے رکھتے ہیں۔ ایک زبان سے خود کو قومی دھارے سے وابستگی اور وفاداری تو جتلا رہی ہیں جبکہ دوسری لب سے وہ ان لوگوں اور جماعتوں کے تئیں نرم گوشہ اور مخصوص ہمدردی رکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک ان کے بارے میں یہ دعویٰ بھی کرتا رہا ہے کہ یہ لوگ مظلوم بلکہ دوسرے الفاظ میں وکٹم ہیں۔ یہ بات فہم و ادراک سے بالا تر ہے کہ یہ لوگ کس اعتبار سے وکٹم ہیں اور کس نے انہیں مظلوم بنایا۔
کیا یہ اس لئے مظلوم ہیں کہ ۱۹۶۴ء سے حالیہ ایام تک متعدد بار انہوںنے آئین کے تئیں وفاداری کا حلف اُٹھایا اور متعدد بار آئین کو چیلنج کرتے ہوئے الحاق کو غیر جمہوری، غیراخلاقی اور غیر قانونی بلکہ عوام کی خواہشات کے برعکس قرار دیتے رہے۔ پھر عوامی اور سیاسی حلقے مرکزی قیادت اور اداروں سے یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ جب کسی جماعت کو اس کی فکراور سیاسی موقف کے تناظرمیں ممنوعہ قراردیا جاتا ہے اور حکومت کے ایسے اقدامات کو متعلقہ ٹریبونل اپنی مہر تصدیق بھی ثبت کرتے ہیں توان سے وابستہ افراد کیوں پابندی کے دائرے میں نہیں آتے، وہ بھیس بدل کر دوسری کوئی جماعت تشکیل دیتے ہیں۔ جماعت تو افراد کے مجمع کا نام ہے ، افراد نہیں تو جماعت کیسی؟
کشمیرکا سیاسی منظرنامہ کسی بھی دورمیں مستحکم اور اطمینان بخش نہیں گذرا۔ کسی نہ کسی حوالہ سے یہ نامسائد حالات کا ہی شکار رہا ہے۔ کانگریس کے زائد از پچاس سالہ دور اقتدار میں کشمیر کا یہ سیاسی منظرنامہ زیادہ ہی ابتری اور انار کی کا شکار رہا نہیں بلکہ عمداً بنایا جاتا رہا ہے۔ اوسط کشمیری اس کو اندھی سیاسی مصلحوں کا تابع ہی قرار دیتا رہا ہے۔ رہی سہی کسر ۱۹۸۷ء کے الیکشن فراڈ کی وساطت سے پوری کردی گئی اور تب سے کشمیر سنبھلا ہی نہیں پارہا ہے۔