اتوار, جولائی 6, 2025
  • ePaper
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار
No Result
View All Result
Mashriq Kashmir
No Result
View All Result
Home اداریہ

کتوں کے جھنڈ ، آبادیوں پر حملہ آور

بلدیاتی اداروں کے منتظمین درندوں کی بقاء کیلئے کام کررہے ہیں

Nida-i-Mashriq by Nida-i-Mashriq
2025-04-09
in اداریہ
A A
آگ سے متاثرین کی امداد
FacebookTwitterWhatsappTelegramEmail

متعلقہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

سرینگر شہر، اس کے مضافات ،دیہات اور قصبوں میں آوارہ کتوں کے جھنڈ در جھنڈ دندناتے اور غراتے نظرآرہے ہیں گویا یہ درندے سڑکوں اور بستیوں پر اپنی بے تاج شہنشاہیت ، دبدبہ اور راج تاج کا اعلان کررہے ہیں اور شہریوں سے سوال کررہے ہیں کہ ہے کوئی جو ہمار ا مقابلہ کرے اور ہماری سلطنت کو چیلنج کرے۔
بظاہر کوئی نہیں ، کیونکہ وہ زمانہ لُد گیا جب سال بھرمیں دو یاتین مرتبہ آوارہ کتوں کی افزائش نسل کو روکنے یا حد اعتدال پر رکھنے کیلئے انہیں زہر دے کر موت کی نیند سلادیا جاتا تھا لیکن وقت گذرتے جس طرح عالمی سطح پر دہشت گرد، جنون پرست، ہجومی تشدد پرایمان اور یقین رکھنے والے بنی نوع انسان، امن اور انسانی ترقیات کیلئے ایک زبردست چیلنج بن کر بلکہ سم قاتل بن کر دندناتے پھر رہے ہیں اور مختلف انسان اور ادارے نما عنصر ان دہشت گرد عناصر کی پشت پناہی کررہے ہیں اسی طرح آج کے دور میں درندوں کی نسل سے وابستہ کتوں کی افزائش نسل، ان کی دیکھ بھال، صحت اور سلامتی کے حوالہ سے اقدامات ،ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے کتو ںکیلئے مخصوص غذائوں کی تیاری اور دوسرے مطلوبہ اقدامات بلکہ کاروبار سے وابستہ ادارے اور سرکاری وضائف اور مالی امداد کے حصول کی راہیں ہموار رکھنے کی غرض سے کچھ مخصوص این جی اورز اس نسل کا صفایا کرنے کی راہ میں حائل ہی نہیں بلکہ جونہی شہری آبادی کی صحت اور سلامتی کے تعلق سے کوئی قدم اُٹھایا جارہا ہے تو یہ لوگ جٹ میدان میں کود پڑتے ہیں اور کتو ںکو بچائو کے نعرے بلند کرتے ہیں۔
ان لوگوں اور اداروں کی سرپرستی ملکی سطح پر کئی لوگ اور ادارے کررہے ہیںجن میں منیکا گاندھی،جس نے ماضی قریب میں کشمیرکی شہرہ آفاق پشمینہ صنعت کی تباہی وبربادی کی بُنیاد رکھی اور جس بُنیاد کو اپنی انکھوں سے دیکھنے اور کشمیرکی اس صنعت کے زوال اور انحطاط کے حوالہ سے متوقع مضمرات کو محسوس کرنے کے باوجود وقت کے حکمرانوں نے آنکھیں بندکرلی تھی، خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
آبادی حیران اور ششدر ہے ۔ سوال پہ سوال کیا جارہاہے کہ کتوں کی افزائش نسل کو روکنے کے حوالہ سے کئی برسوں سے جن اقدامات اور منصوبہ بندپروگراموں کے اعلانات سامنے آرہے ہیں کے باوجود اتنی تعداد میں کتے کہاں سے آرہے ہیں اور بستیوں میںنمودار ہوکر کچھ ایام تک دندناتے پھرنے کے بعد اچانک وہ کہاں غائب ہوجاتے ہیں اور انکی جگہ کتوں کا ایک نیا جھنڈ اپنی موجودگی کااعلان کرتا نظرآرہاہے۔ سرینگر میونسپلٹی اور وادی کے دوسرے بلدیاتی ادارے اس حوالہ سے نہ صرف شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہیں بلکہ ہرسال لاکھوں روپے مختص بجٹ کی تصرفات کے باوجود ذرہ بھر بھی شہری آبادی کو تحفظ حاصل نہیں۔
مسلسل دعویٰ کیاجارہاہے کہ کتوں کی افزائش نسل روکنے کیلئے ان کی نس بندی کی جارہی ہے ، اگرو اقعی یہ پروگرام عمل آوری کے حوالہ سے جاری ہے تو پھر کتو ںکی آبادی کن دوسرے وجوہات کی بنا پر بڑھتی جارہی ہے۔ کیا بیرون کشمیرسے گاڑیوں میں بھر بھر کے کتوں کو کشمیر لایاجارہاہے اور انہیں مختلف بستیوں میںرات کی تاریکیوں میں چھوڑاجارہاہے یا یہ محض ایک عوامی تاثرہے یا مفروضہ؟ کچھ بھی ہو زمینی حقیقت یہ ہے کہ وہ کوئی سڑک، گلی ، کوچہ، نکڑ اور کھیت اور کھلیان نہیں جہاں انسانوں سے کہیں زیادہ آوارہ کتوں کے جھنڈ در جھنڈ موجود اور دندناتے پھر رہے ہیں۔
محض چند روز قبل ڈائون ٹائون سرینگر کی ایک بستی میں آوارہ کتوں نے بیک وقت چالیس شہریوں کو کاٹ کھایا ، قطع نظر اس کے کہ اس نوعیت کے متعدد واقعات بستیوں اور مضافات میں آئے روز پیش توآرہے ہیں لیکن رپورٹ نہیں ہورہے ہیں، لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ سب کچھ نارمل ہے کوئی ناخوشگوار معاملہ سامنے نہیںآرہاہے اور درندہ کتوں کی نسل اور آبادی اچانک اب شرافت کی زندگی بسرکررہی ہے۔
صبح سویرے سکول جانے والے بچوں کا تحفظ یقینی بنانے کیلئے ان کے والدین پر اضافی بوجھ بڑچکا ہے، وہ مجبوری اور بے بسی کے عالم میں بچوں کو اپنے ساتھ لے کر بسوں پر سوارکررہے ہیں اور یہی مشق بچوں کی سکولوں سے واپسی پرانہیںدہرانا پڑرہی ہے۔ کسی بھی بستی میں چلنا پھرنا بتدریج ناممکن بنتا جارہا ہے۔ ہاتھ میں کچھ بھی ہوکتوں کے جھنڈ اُن پر حملہ آور ہوکر چھین لیتے ہیں، مزاحمت کریں تو کاٹ ڈالتے ہیں۔ پھر بھی سرینگر میونسپلٹی اور وادی کے دوسرے بلدیاتی اداروں کے منتظمین اور ان کے سرپرست اعلیٰ حضرات کتوں کے ان حملوں کو ان کی فطرت اور روزمرہ کا معمول قرارد کر اپنی ذمہ داریوں سے دامن کترانے کی سعی لاحاصل میں اپنی عاقبت تباہ کررہے ہیں۔
کتے کے کاٹے کے علاج اور مابعد طبی نگہداشت کو یقینی بنانے کیلئے کم سے کم دس بارہ ربیز انجکشن درکار ہے ۔ ایک ربیزانجکشن کی قیمت اوسط ساڑھے تین سو روپے ہیں ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دس بارہ انجکشن کے لئے کم سے کم ۳۵۰۰ اور ۴۲۰۰؍ روپے کا خرچہ، دوسرے اخراجات اور نگہداشت کے حوالہ سے بات نہیں کررہے ہیں۔ کیا اس کا ذرہ بھر بھی احساس ان لوگوں اور این جی اوز کو نہیں جو کتوں کے تحفظ کیلئے دن رات مرے جارہے ہیں ؟ باالخصوص وہ این جی اوز جو کتوں کے نام پر مختلف اداروں سے سالانہ بجٹ حاصل کررہے ہیں کیا کبھی انہوںنے کتے کے کاٹے کسی متاثر کے علاج ومعالجہ کے تعلق سے اخراجات برداشت کئے، بادی النظرمیں نہیں۔
بہرحال تمام تر مشاہدات، تجربات، پیش آمدہ واقعات اور معاملات، لوگوں کو درپیش مشکلات اور بحیثیت مجموعی صحت عامہ کے تعلق سے معاملات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے نچوڑ یہ ہے کہ چاہے حکومت کی پالیسی ہویا بلدیاتی اداروں کی پالیسی اور منصوبہ بندی اس ضمن میں کلیتاً ناکام ہوچکی ہے، کیونکہ اس پالیسی اور منصوبہ بندی کے ہوتے نہ افزائش نسل کی روک تھام کامیاب نظرآرہی ہے اور نہ ہی کتوں کی فطرت، خصلت اور درندگی کوہی ختم یا قابو پایا جاسکا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کتوں کی افزائش نسل کوروکنے کیلئے کچھ نئے اقدامات تلاش کئے جانے چاہئے، اس حقیقت کو خاطرمیں رکھتے ہوئے کہ اڑھائی سال کی مدت میں کتوں کے ۷۲؍ جوڑے پیدا ہوتے ہیںاور یہی ۷۲؍ جوڑے اگلے اڑھائی سال کی مدت کے دوران کثرت میں نئے جوڑوں کی پیدائش اور افزائش کی بُنیادیں ڈالتے جارہے ہیں۔
فی الحال موجودہ منظرنامہ یہ ہے کہ شہری خوفزدہ ہیں، بچے سکول آتے جاتے سہمے اور ڈرے ڈرے نظرآرہے ہیں جبکہ بستیوں کے اندر رابطہ سڑکوں پر لوگوں کاعبور ومرور اب قدرے ناممکن بنتا جارہاہے ۔ اس ناکامی کیلئے سرینگر میونسپلٹی کے سربراہ اور دوسرے بلدیاتی اداروں کے منتظمین کو مبارکباد اور شکریہ ہی پیش کیا جاسکتا ہے کہ وہ درندوں کی صحت اور سلامتی اور بقاء کے لئے ہر ممکن اور ہر سطح پر فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ShareTweetSendShareSend
Previous Post

ڈرگس…!

Next Post

پی ایس ایل پر تنقید؛ کیا فرنچائز اونرز آپس میں الجھ پڑے؟

Nida-i-Mashriq

Nida-i-Mashriq

Related Posts

آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

مرکزی وزیر زراعت کا دورہ اورکشمیر کا باغبانی کا شعبہ  

2025-07-06
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جھلستی دھوپ اوربارشوںمیں کمی کے منفی اثرات

2025-07-05
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

امر ناتھ یاترا :سرکاری انتظامات اور مقامی مسلمانوں کے تعاون کا امتزاج

2025-07-03
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پی اے سی: کیا کشمیر میں اب بھی جذباتی نعروں کی گنجائش ہے ؟

2025-07-02
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-02
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

ٹریفک حادثات، قیمتی جانوں کا اتلاف…ذمہ دار کون؟

2025-07-01
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

پہلگام میں جنسی زیادتی کا واقعہ:ہم کہاں جا رہے ہیں؟

2025-06-30
آگ سے متاثرین کی امداد
اداریہ

جموں کشمیر :کانگریس کے قول و فعل میں تضاد؟

2025-06-29
Next Post
پاکستان سپر لیگ کے آٹھویں ایڈیشن کے دوران میتھیوویڈ اور عادل ایکشن میں نظر آئیں گے

پی ایس ایل پر تنقید؛ کیا فرنچائز اونرز آپس میں الجھ پڑے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

I agree to the Terms & Conditions and Privacy Policy.

  • ePaper

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

No Result
View All Result
  • پہلا صفحہ
  • تازہ تریں
  • اہم ترین
  • مقامی خبریں
  • قومی خبریں
  • عالمی خبریں
  • اداریہ
  • سچ تو یہ ہے
  • رائے
  • بزنس
  • کھیل
  • آج کا اخبار

© Designed by GITS - Nida-i-Mashriq

This website uses cookies. By continuing to use this website you are giving consent to cookies being used. Visit our Privacy and Cookie Policy.