تحریر:ہارون رشید شاہ
اپنے عمر صاحب… عمر عبداللہ صاحب ‘ جنہیں ایک زمانے میں ہم ٹویٹر بابا کہتے تھے اور… اور اس لئے کہتے تھے کہ یہ صاحب بات بات اور ہر ایک بات پر ٹویٹ کرتے رہتے تھے ‘ آجکل کم بولتے ہیں… کم ٹویٹ کرتے ہیں… کیوں کرتے ہیں ‘ ہم نہیں جانتے ہیں … کہ اگر ہم کوئی بات جانتے ہیں…تو صرف ایہ ایک بات کہ عمر صاحب کم بولتے ہیں …اور جو بولتے ہیں تول مول کر بولتے ہیں… کیوں تول مول کر بولتے ہیں؟ اس کا جواب عمر صاحب کے ہی پاس ہو گا کسی اور کے پاس نہیں ہو گا اور… اور بالکل بھی نہیں ہو گا ۔تو اگلے روز انہوں نے تول مول کے بولا … یہ بولا کہ ملک کشمیر میں سیاحوں کی آمد کو یہاں کے امن کے ساتھ ‘ یہاں کے حالات کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہئے اور…اور بالکل بھی نہیں جوڑا جانا چاہئے ۔ عمر صاحب یہ بات آپ کو بتا رہے تھے اور نہ وہ ہم سے مخاطب تھے … عمر صاحب یہ بات حکومت تک پہنچانا چاہتے تھے ‘ حکومت کو بتانا چاہتے تھے اور… اور اس لئے بتانا چاہتے تھے کیونکہ حکومت جو جہاں بھی اور جب بھی ملک کشمیر کی بات کرتی ہے تو… تو پہلے سیاحوں کی آمد کی بات کرتی ہے اور… اور سیاحوں کی آمد کو برا ہ راست ملک کشمیر کے امن اور یہاں کے پر سکون حالات کے ساتھ جوڑتی ہے اور… اور اپنے عمر صاحب اس بات سے اتفاق نہیں کرتے ہیں… ان جناب کا جاننا اور مانناہے کہ امن اور ملک کے حالات کا ملک کشمیر سیاحت پر آنے والوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیںہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے … یعنی امن اور سیاحوں کی آمد دو الگ الگ معاملات ہیں ‘ اشوز ہیں اور باتیں ہیں ۔ہم بھی عمر صاحب کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں… سو فیصد کرتے ہیں… لیکن ہاں ایک مسئلہ ضرور ہے اور وہ یہ ہے کہ جب اپنے عمر صاحب ملک کشمیر کے مالکِ کُل تھے… جب وہ ملک کشمیر کے حاکم اعلیٰ تھے تو… تو تب خود عمر عبداللہ امن کو ‘ ملک کشمیر کے حالات کو سیاحوں کی آمد کے ساتھ جوڑ تے رہتے تھے… سیاحوں کی آمد کو پر امن کشمیر کا ثبوت قرار دیتے تھے… گرچہ اس کے ساتھ وہ کشمیر مسئلہ کو مذاکرات سے ’حل‘ کرنے کی بھی بات کرتے تھے … اب اگر یہی بات ‘سیاحوںکی بڑھتی تعداد کو موجودہ حکومت بھی امن اور ملک کشمیر کے حالات سے توڑ دیتی ہے تو کم از کم ہماری نظروں میں وہ کوئی گناہ نہیں کرتی ہے اور… اور اگر ایسا کرنا گناہ ہے تو… تو صاحب عمر صاحب بھی اس گناہ کا ارتکاب کر چکے ہیں اور… اور کئی بار کر چکے ہیں ۔ ہے نا؟