اگر چہ چنائو کمیشن کی طرف سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ کمیشن جموںوکشمیر میںاسمبلی الیکشن منعقد کرانے کی تیاریوں میں جٹ گیا ہے اور کمیشن کے کچھ اعلیٰ عہدیدار بہت جلد یوٹی کے دورے پر آرہے ہیں کے باوجود کچھ سیاسی حلقوں میں مسلسل یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہو بھی سکتے ہیں اور نہیں بھی سکتے ہیں۔خدشات کا اظہار کرنے والے اس تعلق سے جو کچھ دلیلیں پیش کررہے ہیں ان میں کس حد تک وزن ہے اور منطق بھی۔ بادی النظرمیں بھی اور اب تک کے گذرے ۴،۵؍سالوں کے دوران پیش آمدہ معاملات اور انداز فکر واپروچ کے تناظرمیں کسی حد تک قریب قریب محسوس ہورہی ہے۔
لیکن کشمیرنشین بعض سنجیدہ فکر سیاسی انداز فکر رکھنے والے اور خاص کر عوام کی اکثریت اسمبلی الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے زیادہ پُر جوش نہیں۔ یہ حلقے کچھ سیاسی جماعتوں اور ان کی لیڈر شپ کی طرف سے اسمبلی الیکشن کے تعلق سے اپنی جس عجلت کا مظاہرہ کررہے ہیں کو ان کی اقتدار پرستانہ سوچ قرار دے رہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ یوٹی حیثیت کے ہوتے الیکشن تو ہوسکتے ہیں اور کوئی بھی جماعت یا جماعتوں کا گٹھ جوڑبرسراقتدار آسکتا ہے لیکن اُس صورت میں عوام کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
بے شک الیکشن مہم کے دوران لوگوںسے انہیں درپیش مسائل اور سنگین نوعیت کے معاملات کے حوالہ سے یقین دہانیاں دی جائینگی اور وعدوں کے انبار لگائے جائیںگے لیکن اقتدار میںآنے والے لوگوں کے ہاتھ میں ذرہ بھر بھی کوئی اختیار نہیں ہوگا، یہاں تک کہ وہ انتظامیہ میں درجہ چہارم کے ملازم کی تقرری تو دور کی بات ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کا اختیار بھی نہیں رکھتے۔ عوامی مسائل اور معاملات کے حل کیلئے ہر اشو کو پیشگی منظوری کیلئے گورنر کے دربار میں حاضر ہو کر اور فائل بغل میں رکھ کر پہلے ماتھا ٹیکنا ہوگا، پھر یہ گورنر کی پسند اور ناپسند اور دیگر مصلحتوں کے پیش نظر رکھ کر ہی متعلقہ فائل کا فیصلہ ہوتا رہے گا۔
کیا کشمیرنشین اور جموں نشین سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ نہیں کررہی ہیں کہ دہلی کی اسمبلی میں بھاری بھرکم اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کیجریوال سرکار کو قدم قدم پر گورنر کی دہلیز پر حاضری دینے کیلئے مجبور ہونا پڑرہا ہے اس لئے کہ اس کے پاس اختیارات نہیں ہیں حالانکہ دہلی ملک کی راجدھانی بھی ہے۔ اختیارات کے حصول کے بغیر جو حکومت چاہئے ایک پارٹی کی ہو یا مخلوط طرز کی ہو برسراقتدار توآئے گی لیکن اس کے ہاتھ میں اختیارات نہیں ہوں گے۔
اُس صورت میں عوام جب سوال کریں گے اور الیکشن مہم کے دوران لوگوں سے کئے گئے وعدے یا د دلائیں جائیں گے اور بلند بانگ دعوئوں کی اعتباریت کے حوالہ سے بھی سوال پوچھے جائیں گے تو برسراقتدار لوگ انہیں کیا جواب دیں گے۔ کس منہ سے کہیں گے کہ ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں کیا ایسا کوئی بھی منظرنامہ لوگوں کے ساتھ دھوکہ ، چھل اور فراڈ نہیں ؟ ایسی کسی بھی سرکار کی حیثیت جہاں سراپا لنگڑی ہوگی وہیں ایسی کسی حکومت سے یہ توقع نہیں کہ وہ لوگوں کے حقوق ، مجموعی مفادات اور سٹیٹ کے قدرتی وسائل کا تحفظ یقینی بنانے کی اہل ہوگی۔
ایسے کسی منظرنامہ سے باہر آنے کیلئے ریاستی درجہ کی بحالی الیکشن کے انعقاد سے قبل کا نریٹو او رمطالبہ ہونا چاہئے۔ حکومتی سطح پر یہ یقین تو موجود ہے کہ ریاستی درجہ بحال کیاجائے گا لیکن کب اس تعلق سے کسی وقت کا تعین نہیں البتہ مرکزی وزیر داخلہ نے چند روز قبل یہ اشارہ دیا کہ الیکشن کے بعد ریاستی درجہ بحال کیاجائیگا۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ الیکشن کے انعقاد کو کسی حد تک ترجیح تو حاصل رہے گی لیکن ریاستی درجہ کی بحالی کو نہیں۔ کیوں؟ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میںایک یہ خیال کیاجارہا ہے کہ مرکز فی الحال نہیں چاہئے گا کہ الیکشن کے بعد جو سرکار جموںوکشمیرمیں برسراقتدار آجاتی ہے اس کے ہاتھ میں آئینی ، قانونی اور انتظامی نوعیت کے اختیارات ہوں۔ وہ جموںوکشمیر پر بدستور لیفٹیننٹ گورنر کی وساطت سے اپنی حکمرانی چاہے گااور یہی اس کی اولین ترجیحات بھی ہوں گی۔
لیکن جموںوکشمیر کی سیاسی جماعتیں اور ان کی اقتدار پرست لیڈر شپ (عمر عبداللہ کو چھوڑ کر ) اقتدار چاہتی ہیں اختیارات نہیں۔ لیکن حصول اقتدار کیلئے وہ عوام کے منہ میں مراعات اور معاملات کے حل کی سمت میںیقین دہانیوں اور وعدوں کا ’’لالی پف‘‘ ٹھونس کر ان سے ووٹ حاصل کرنے کی سمت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں ہونے دیں گے۔ یہی وہ مخصوص منظرنامہ ہے جس کو محسوس اور دیکھ کر لوگوں کی اکثریت ریاستی درجہ کی الیکشن سے قبل بحالی کے بغیر الیکشن عمل کی حامی نہیںہے کیونکہ وہ اس بات کو شدت سے محسوس کررہی ہیں کہ اسمبلی کے اندر جاکر منتخب ہونے والے لوگ اگلے پانچ سال تک اسمبلی ایوان میں ریاستی درجہ کی بحالی کی مانگ لے کر چلاتے رہیں گے اور کوئی عوامی اہمیت کا حامل فریضہ انجام دینے سے وہ قاصر ہی رہیں گے۔
اس سارے تناظرمیں جب عمرعبداللہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ مجوزہ اسمبلی الیکشن کا حصہ نہیں بنیں گے کیونکہ بقول ان کے ’’میں ایسی کسی اسمبلی کا رکن بن کر اپنی بے عزتی نہیں چاہتا‘‘کو کچھ سیاسی کارکن ان کے اس اعلان کو الیکشن سے قبل ان کی شکست کا ٹھپہ لگاکرانہیں یہ مشورہ بھی دیتے نظرآرہے ہیں کہ وہ سیاست سے کنارہ کشی کا بھی اعلان کریں ۔ ایسا اپروچ رکھنے والے سیاسی کارکنوں کی سوچ اور اپروچ پر ماتم کرنا چاہئے کہ جو اپنے ذہنی اور دماغی فتوروں کو زبان دینے سے قبل اپنے مجوزہ مشوروں پر غور وفکر کرنے کی بھی اہلیت اور صلاحیت نہیں رکھتے۔
نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی او رکانگریس کئی اعتبار سے ہم خیال تصور کی جارہی ہیں اور یہ بھی اُمید کی جارہی ہے کہ آنے والے اسمبلی الیکشن کے دوران یہ آپس میں اشتراک ضرور کریں گے چاہئے قبل از الیکشن یا الیکشن نتائج کے بعد، لیکن ان کے درمیان گٹھ جوڑ کو خارج از بحث قرار نہیں دیاجاسکتا ہے۔ تینوں جماعتیں الیکشن کا بھی مطالبہ کررہی ہیں اور ریاستی درجہ کی بحالی کا بھی ۔ فرق صرف یہ ہے کہ الیکشن سے قبل ریاستی درجہ کی بحالی پر ان کی طرف سے کوئی اصرار نہیں، لوگوں کی خواہش ہے کہ یہ تینوں الیکشن عمل کے انعقاد سے قبل ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ کریں اور ضرورت پڑے تو اس مقصد کیلئے مشترکہ لائحہ عمل بھی مرتب کیاجاسکتا ہے۔ الیکشن سے قبل ریاستی درجہ کی بحالی کا مطالبہ اور ضرورت جموں وکشمیرکے عوام کے جمہوری اور آئینی حقوق سے براہ راست تعلق رکھتا ہے۔