نئی دہلی/۶جون
لوک سبھا انتخابات کے نتائج میں بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنے کے دو دن بعد این ڈی اے میں اس کے حلیفوں نے مرکز میں اہم عہدوں کے لئے سخت سودے بازی شروع کردی ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ بی جے پی اہم وزارتوں کو چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ سب سے بڑی پارٹی کے جادوئی اعداد و شمار سے کافی کم ہونے کی وجہ سے این ڈی اے کے حلیفوں کے پاس اتفاق رائے تک پہنچنے کے لئے سخت ڈیڈ لائن ہے کیونکہ اس ہفتے کے آخر میں تیسری نریندر مودی حکومت کی حلف برداری کی تقریب منعقد کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔
بی جے پی کےلئے اکثریت حاصل کرنے کے لئے جن چار اتحادیوں کی حمایت ضروری ہے ان میں این چندر باو¿ نائیڈو کی تلگودیشم پارٹی (16)، نتیش کمار کی جے ڈی یو (12)، ایکناتھ شندے کی شیوسینا (7) اور چراغ پاسوان کی لوک جن شکتی پارٹی رام ولاس (5) شامل ہیں۔
این چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار، دونوں اتحاد کے دور کے تجربہ کار لیڈر ہیں، اس انتخاب میں کنگ میکر بن کر ابھرے ہیں اور سمجھا جاتا ہے کہ انہوں نے ان کی حمایت کے لئے مرکز میں اہم کردار وں کا مطالبہ کیا ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ تلگودیشم نے لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ بھی مانگا ہے جبکہ جے ڈی یو ذرائع نے کہا کہ وہ این ڈی اے حکومت کے لئے مشترکہ کم از کم پروگرام پر زور دے سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس کے نفاذ کےلئے تشکیل دی گئی کوآرڈینیشن کمیٹی کی قیادت نتیش کمار کریں گے۔
ذرائع نے بتایا کہ بی جے پی اسپیکر کا کردار چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہے اور تلگودیشم کو ڈپٹی اسپیکر کے عہدے کی پیش کش کی جاسکتی ہے۔
ایک اور بڑی تبدیلی آئی ہے۔ 2014 اور 2019 کے انتخابات کے بعد بننے والی نریندر مودی حکومتوں میں اتحادیوں کی صرف علامتی نمائندگی تھی کیونکہ بی جے پی کے پاس اپنے بل بوتے پر مکمل اکثریت تھی۔ لیکن اس بار بی جے پی کو ہر حلیف کی جیتی ہوئی نشستوں کے تناسب سے وزارتی عہدوں کی تقسیم کرنی پڑ سکتی ہے۔
تاہم بی جے پی سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے تحت آنے والی چار اہم وزارتوں دفاع، خزانہ، داخلہ اور خارجہ امور میں اتحادیوں کو شامل کرنے کی خواہاں نہیں ہے۔
بی جے پی ان پورٹ فولیو کو بھی نہیں چھوڑنا چاہے گی جو اس کے بنیادی ڈھانچے کو فروغ دینے کے لئے اہم ہیں، جیسے سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہیں، یا اس کا فلاحی ایجنڈا۔ انتخابات سے قبل بی جے پی کے وعدوں میں وزیر اعظم مودی کے ذریعہ شناخت کی گئی چار’ذاتوں‘ …. غریبوں ، خواتین ، نوجوانوں اور کسانوں کی حمایت بھی شامل تھی۔ بی جے پی ان گروپوں سے متعلق پورٹ فولیو میں کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی۔
نریندر مودی حکومت کے پچھلے دس سالوں میں سڑکوں اور شاہراہوں کی تعمیر کو سراہا گیا ہے۔ نتن گڈکری کی قیادت میں اس اقدام سے دور دراز علاقوں تک رابطے میں اضافہ ہوا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بی جے پی اپنے کسی اتحادی کو چارج دے کر اپنی رفتار کھونا نہیں چاہے گی۔
ایک اور اہم پورٹ فولیو ریلوے کا ہے۔ جے ڈی یو ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ ریلوے کی وزارت کا چارج حاصل کرنے کے خواہاں ہیں جو ماضی میں نتیش کمار کے پاس تھا، لیکن بی جے پی میں آوازیں یہ دلیل دے رہی ہیں کہ اس شعبے میں اہم اصلاحات چل رہی ہیں اور کسی بھی رکاوٹ سے وہ رک سکتے ہیں۔
پچھلی دو نریندر مودی حکومتوں میں اتحادیوں کو فوڈ پروسیسنگ اور بھاری صنعتوں جیسے نسبتاً کم اہم پورٹ فولیو میں کردار ملا تھا۔
لیکن اس بار بی جے پی کو اپنے کچھ اتحادیوں کے مطالبات ماننے پڑسکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے بل بوتے پر اکثریت نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق جے ڈی یو کو پنچایتی راج، دیہی ترقی جیسے قلمدان دیے جاسکتے ہیں جبکہ ٹی ڈی پی کو سول ایوی ایشن اور اسٹیل جیسے قلمدان دیے جاسکتے ہیں۔ تاہم، بی جے پی مالیات اور دفاع جیسی بڑی وزارتوں میں اتحادیوں کے ممبران پارلیمنٹ کو وزیر مملکت کے عہدے پر جگہ دینے کی کوشش کر سکتی ہے۔
بی جے پی اتحادیوں کو جو دیگر قلمدان سونپے کیلئے راضی ہو سکتی ہے میں سیاحت، ہنرمندی کی ترقی، سائنس و ٹکنالوجی اور ارتھ سائنس شامل ہیں۔