نئی دہلی//
وزیر اعظم نریندر مودی نے کنیا کماری میں اپنے ۴۵گھنٹے کے دھیان (مراقبہ ) کا تجربہ شیئر کرتے ہوئے اہل وطن سے اپیل کی ہے کہ بحیثیت قوم ہمیں اپنی پرانی سوچ اور عقائد پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور عالمی تناظر میں سوچنا چاہئے ۔ اپنے معاشرے کو تبدیل کرنے کا مقصد ملک کو پیشہ ورانہ مایوسیوں کے دباؤ سے آزاد کر کے اسے منفی سوچ سے نجات دلانا ہے ۔
مودی نے آج نمو ایپ پر ایک بلاگ لکھ کر کنیا کماری کے تجربات کو تحریری شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے یہ الفاظ یکم جون کو کنیا کماری سے دہلی واپس آتے ہوئے شام۱۵:۴سے شام ۷بجے کے درمیان لکھے تھے ، جس میں انہوں نے اگلے۲۵سال صرف ملک کے لیے وقف کرنے اور ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کو حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے ۔
مودی نے یہ بھی کہا کہ مراقبہ کے ۴۵گھنٹوں کے دوران، بھارت ماتا کے قدموں میں بیٹھ کر، ان کے ذہن میں ہندوستان کے روشن مستقبل کے مقاصد کے لیے خیالات ابھر رہے تھے ، جنہیں چڑھتے سورج اور وسعتوں نے نئی بلندیوں تک پہنچایا تھا۔ سمندر نے توسیع دی اور افق کی توسیع نے کائنات کی گہرائیوں میں سرایت کرنے کا ایک مسلسل احساس دیا۔ اس دوران ہمالیہ کی گود میں کئی دہائیوں قبل کیے گئے خیالات اور تجربات کو پھر سے زندہ کیا گیا۔
اپنے مضمون کا آغاز کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا ’’آج یکم جون کو جمہوریت کی ماں میں جمہوریت کے سب سے بڑے تہوار کا ایک سنگ میل مکمل ہو رہا ہے ۔ کنیا کماری میں تین دن کے روحانی سفر کے بعد میں ابھی دہلی کے لیے ہوائی جہاز میں سوار ہوا ہوں…کاشی اور دیگر کئی سیٹوں پر ووٹنگ ہو رہی ہے ۔ بہت سارے تجربات ہیں، بہت سارے احساسات… میں اپنے اندر لامحدود توانائی کا بہاؤ محسوس کرتا ہوں۔ درحقیقت۲۴کے اس الیکشن میں کئی خوش گوار اتفاقات سامنے آئے ہیں۔ امرتکال کے اس پہلے لوک سبھا انتخاب میں، میں نے میرٹھ سے مہم کا آغاز کیا‘ جو۱۸۵۷کی پہلی آزادی کی جدوجہد کے لیے ایک تحریک ہے ۔ اس الیکشن کی میری آخری میٹنگ پنجاب کے ہوشیار پور میں ہوئی تھی اور ماں بھارتی کے گرد گھوم رہی تھی‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا’’پنجاب میں آخری جلسہ منعقد کرنے کا اعزاز، سنت رویداس کی مقدس سرزمین، ہمارے گرووں کی سرزمین، بھی بہت خاص ہے ۔ اس کے بعد مجھے کنیا کماری میں بھارت ماتا کے قدموں میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ان ابتدائی لمحات میں میرے ذہن میں انتخابات کا شور گونج رہا تھا۔ جلسوں اور روڈ شوز میں نظر آنے والے ان گنت چہرے میری آنکھوں کے سامنے آ رہے تھے ۔ ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی بے پناہ محبت کی وہ لہر، ان کی نعمتیں… ان کی آنکھوں میں میرے لیے بھروسہ، وہ پیار…میں سب کچھ اپنے اندر سمو رہا تھا۔ میری آنکھیں نم ہو رہی تھیں… میں خالی پن میں جا رہا تھا، دھیان میں داخل ہو رہا تھا‘‘۔
مودی نے کہا’’چند ہی لمحوں میں سیاسی بحثیں، حملے اور جوابی حملے …الزامات کی آوازیں اور الفاظ، یہ سب خود بخود غائب ہو گئے ۔ میرے ذہن میں لاتعلقی کا احساس مزید شدید ہو گیا… میرا دماغ باہر کی دنیا سے بالکل الگ ہو گیا۔ اتنی بڑی ذمہ داریوں کے درمیان ایسی سادھنا مشکل ہے ، لیکن کنیا کماری کی سرزمین اور سوامی وویکانند کی ترغیب نے اسے آسان بنا دیا۔ میں یہاں وزیراعظم کے طور پر اپنا انتخاب اپنے کاشی کے ووٹروں کے قدموں پر چھوڑ کر آیا ہوں۔ میں خدا کا بھی شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے پیدائش سے یہ اقدار عطا کیں۔ میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ سوامی وویکانند جی نے اس مقام پر دھیان لگاتے ہوئے کیا تجربہ کیا ہوگا! میری روحانی مشق کا کچھ حصہ اس قسم کے خیالات کے بہاؤ میں بہہ گیا‘‘۔
وزیراعظم نے کہا کہ اس لاتعلقی کے درمیان، امن اور خاموشی کے درمیان، ہندوستان کے روشن مستقبل، ہندوستان کے مقاصد کے لیے ان کے ذہن میں مسلسل خیالات گردش کر رہے تھے ۔ کنیا کماری کے چڑھتے سورج نے میری سوچوں کو نئی بلندیاں دیں، سمندر کی وسعت نے میرے خیالات کو وسعت دی اور افق کی وسعت نے مجھے کائنات کی گہری وحدت کا مستقل احساس دلایا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ہمالیہ کی گود میں کئی دہائیوں پہلے کیے گئے خیالات اور تجربات دوبارہ زندہ ہو رہے ہیں۔
مودی نے کہا’’کنیا کماری کی یہ جگہ ہمیشہ میرے دل کے بہت قریب رہی ہے ۔ کنیا کماری میں وویکانند راک میموریل مسٹر ایکناتھ راناڈے نے بنوایا تھا۔ مجھے ایکناتھ جی کے ساتھ کافی سفر کرنے کا موقع ملا۔ اس یادگار کی تعمیر کے دوران کچھ وقت کنیا کماری میں رہنا اور کشمیر سے کنیا کماری تک جانا فطری تھا…یہ ہماری مشترکہ شناخت ہے جو ملک کے ہر باشندے کے دل میں پیوست ہے ۔ یہ وہ شکتی پیٹھ ہے جہاں ماں شکتی نے کنیا کماری کی شکل میں جنم لیا تھا۔ اس جنوبی سرے پر ماں شکتی نے تپسیا کی اور بھگوان شیو کا انتظار کیا جو ہندوستان کے شمالی سرے پر ہمالیہ میں مقیم تھے ‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کنیا کماری سنگم کی سرزمین ہے ۔ ہمارے ملک کے مقدس دریا مختلف سمندروں سے ملتے ہیں اور یہاں ان سمندروں کا سنگم ہوتا ہے ۔ اور یہاں ایک اور عظیم سنگم نظر آتا ہے’’ ہندوستان کا نظریاتی سنگم۔ وویکانند راک میموریل کے ساتھ ساتھ، یہاں پر سینٹ تھروولوور، گاندھی منڈپم اور کامراجر منی منڈپم کا ایک بہت بڑا مجسمہ ہے ۔ عظیم ہیروز کے خیالات کے یہ دھارے یہاں قومی سوچ کا سنگم بناتے ہیں۔ یہ قوم کی تعمیر کے لیے عظیم ترغیبات کو جنم دیتا ہے ۔ ان لوگوں کو جو ہندوستان کے ایک قوم ہونے اور ملک کے اتحاد پر شک کرتے ہیں، کنیا کماری کی یہ سرزمین اتحاد کا انمٹ پیغام دیتی ہے ۔‘‘