نئی دہلی//
نائب صدر جگدیپ دھنکھڑ نے ایمرجنسی کے دوران آئین کی تمہید میں شامل الفاظ کو زخم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے آئین کی روح کی توہین ہوئی ہے ۔
دھنکھڑ کو ہفتہ کو نائب صدر کی رہائش گاہ پر منعقدہ ایک تقریب میں کرناٹک کے سابق ایم ایل اے اور مصنف ڈی ایس ویرایا کی مرتب کردہ کتاب ’امبیڈکر کے سندیش‘کی پہلی کاپی پیش کی گئی۔
اس موقع پر نائب صدر جمہوریہ نے دستور کے تمہید میں تبدیلی کو ایک سنگین مسئلہ قرار دیا اور کہا کہ تمہید ہی وہ بنیاد ہے جس پر پورا آئین قائم ہے ۔
دھنکھڑنے کہا کہ ایسی تبدیلی کسی اور ملک کے آئین کے دیباچے میں نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا’’کسی بھی آئین کی تمہید اس کی روح ہوتی ہے ۔ ہندوستانی آئین کا دیباچہ منفرد ہوتا ہے ۔ ہندوستان کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک کے آئین کا دیباچہ تبدیل نہیں ہوا، اور کیوں؟ تمہید ناقابل تغیر ہے ۔ تمہید وہ بنیاد ہے جس پر پورا آئین ٹکا ہوا ہے ۔ یہ اس کی بیج کی شکل ہے ، لیکن یہ ہندوستان کے آئین کی روح ہے ، لیکن ہندوستان کی اس تمہید کو۱۹۷۶میں۴۲ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کے تحت تبدیلی کیا گیا اور ’سوشلسٹ‘،’سیکولر‘اور ’انٹیگریٹی‘جیسے الفاظ شامل کیے گئے ۔
نائب صدرنے ایمرجنسی کو جمہوریت کا سیاہ ترین دور قرار دیا اور کہا کہ اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانی چاہئے ۔ انہوں نے کہا’’ایمرجنسی ہندوستانی جمہوریت کا سیاہ ترین دور تھا، جب لوگ جیلوں میں تھے ، بنیادی حقوق معطل کیے گئے تھے ۔ ان لوگوں کے نام پر ’ہم بھارت کے لوگ‘ جو خود اس وقت غلامی میں تھے ، کیا یہ محض الفاظ کی نمائش تھی؟ اس کی الفاظ سے بالاتر مذمت کی جانی چاہیے ‘‘۔
دھنکھڑ نے کہا کہ آئین بنانے والوں نے بہت سوچ بچار کے بعد اس کی تمہید تیار کی ہوگی لیکن اسے اس وقت تبدیل کیا گیا جب ملک کے لوگ ایمرجنسی کی غلامی میں تھے ۔ انہوں نے کہاکہ ’’ہمیں خود کا جائزہ لینا چاہیے ۔ ڈاکٹر امبیڈکر نے یہ کام بہت محنت سے کیا، انہوں نے اس کے بارے میں گہرائی سے سوچا ہوگا۔ ہمارے آئین سازوں نے یہ سوچتے ہوئے تمہید کا اضافہ کیا کہ یہ صحیح اور مناسب ہے ۔ لیکن یہ جذبہ ایسے وقت میں تبدیل ہوا جب لوگ غلامی میں تھے ۔ ہندوستان کے لوگ، جو سپریم طاقت کا سرچشمہ ہیں، جیلوں میں تھے ، نظام انصاف تک رسائی سے محروم تھے ‘‘۔
نائب صدر جمہوریہ نے مختلف آئینی بنچوں کی طرف سے آئین کے تمہید کی تشریح کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس تشریح میں کہا گیا ہے کہ آئین کے تمہید میں اس کے نظریات اور خواہشات کا جوہر موجود ہے ۔ یہ صرف الفاظ نہیں بلکہ ان مقاصد پر مشتمل ہے جو آئین حاصل کرنا چاہتا ہے ۔
دریں اثنا ایمرجنسی کے دوران ایک انگریزی اخبار میں شائع رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ہفتہ کو کہا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تھی اور یہ کانگریس کے منہ پر طمانچہ ہے ۔
بی جے پی کے ترجمان اور رکن پارلیمنٹ سمبت پاترا نے پارٹی کے مرکزی دفتر میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ۲۵جون۲۰۲۵کو ملک میں ایمرجنسی کے۵۰سال مکمل ہو گئے ہیں۔ وہ۳۰دسمبر ۱۹۷۵کا’ٹائمز آف انڈیا‘کا شمارہ لائے جس میں کہا گیا تھا ’’مسز۔ اندرا گاندھی آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں‘‘۔
بی جے پی ترجمان نے کہا کہ آج جو لوگ ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ آئین کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، یہ ان کے منہ پر طمانچہ ہے ۔
اس اخباری رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسز گاندھی کا ماننا تھا کہ آئین ہندوستان کے لوگوں کے حقیقی جذبات کی عکاسی نہیں کرتا اور اسی لیے وہ تبدیلیاں لانا چاہتی تھیں۔ محترمہ گاندھی نے وکلاء کے ایک پروگرام میں یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ کیا ہندوستان کا یہ آئین واقعی ہندوستان کے لوگوں کی خدمت کرتا ہے ؟
ایک سوال کے جواب میں پاترا نے کہا کہ جمہوریت میں ایمرجنسی کے برے عمل پر بات کرنا ضروری ہے تاکہ کوئی دوبارہ اسے دہرانے کی جرات نہ کرے ۔ کانگریس کو آگے آنا چاہئے اور اپنی غلطی کو قبول کرنا چاہئے ۔