اس سمارٹ سٹی کی سمارٹ خستہ حال سڑکیں سمارٹ سٹی کے منصوبے مرتب کرنے والوں اور عمل درآمد کرنے والے ہاتھوں کی اصل میں ان کی سمارٹ ذہنی خستہ حالت کی محض ایک چھوٹی سی تصویر ہے۔ سارا شہر سرینگر کھنڈرات کا ایسا منظر پیش کررہا ہے کہ گمان ہوتا ہے کہ غزہ کا منظر اس کے آگے کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتا۔
ایک ہزار کروڑ روپے کی بجٹ کے اس منصوبے پر عمل آوری نے شہریوں، کشمیرکو بحیثیت مجموعی او راس کی جغرافیہ اور معیشت کو کیا دیا، محض سرسری طور جائزہ لینے پر یہ بات آشکارا ہوجاتی ہے کہ شہر کو سمارٹ سٹی کے نام پر نہ صرف اس کی تاریخی حیثیت کو تقریباً زمین بوس کرکے رکھدیا گیا ہے بلکہ اس منصوبے کو نجی تجوریوں میں بھرتی کے دروازے بھی فلڈ گیٹ کی مانند کھول دیئے گئے ہیں۔
سڑکوں کی چوڑائی ہر گذرتے دن کیسا تھ ایک مسئلہ کے طور اُبھرتا رہا ہے اور سنجیدہ فکراور حساس حلقے بڑھتی آبادی اور بڑھتے ٹریفک کے دبائو اور کاروباری سرگرمیوں کی بڑھوتری کے ہوتے اس خواہش کا اظہار کرکے سڑکوں کی چوڑائی کے لئے نئے پروجیکٹ مرتب کرنے کی ضرورت اُجاگر کرتے رہے ہیں لیکن سمارٹ سٹی کا جونہی نزول ہوا تو پہلا قرعہ فال سڑکوں کی موجودہ چوڑائی کو کم کرنے کی صورت میں سامنے آیا، کچھ پروجیکٹ مکمل ہوئے تو نہ معلوم کہاں سے پانی کا بہائو ان سمارٹ سٹی سڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے کر نزدیکی دکانوں او رمکانوں میںجذب ہونا شروع ہوا، ٹریفک جام ان سمارٹ سٹی سڑکوں پر اب معمول بن چکا ہے ، لیکن صورتحال سے عہدہ برآں ہونے کیلئے ہمارا ٹریفک مینجمنٹ نئی بڑھتی ضرورتوں کے مطابق ٹریفک سسٹم کیلئے کچھ نیا متعارف کرنے سے تو رہا البتہ ان سکڑتی سڑکوں پر سپیڈ بریکر، ٹریفک کو ادھر سے اُدھر رُخ اور سمتیں عطاکرنے کے اپنے فرسودہ نظام کو اور زیادہ شدت کے ساتھ نافذ کرنے پر بضد ہی نہیں بلکہ لوگوں، ٹرانسپورٹروں وغیرہ کو گھنٹوں پر محیط ٹریفک جام کے معاملات اور اس میں پھنسے لوگوں کی حالات زار اور کسمپرسی سے محذوظ ہوکر سینہ تان کر تماشہ بنا ہے۔
سمارٹ سٹی کی تعمیر وتجدید کے ایک حصے کے طور پر ڈل جھیل کے حوالہ سے فورشور روڈ کو مزید وسعت دینے کیلئے دو کلومیٹر سے زائد لمبائی کی بھرائی کا منصوبہ مرتب کرکے سمارٹ سٹی منصوبے سے وابستہ انجینئرنگ عملے، منسلک اہلکاروں اور سب سے بڑھ کر اس کے سابق چیف ایگزیکٹیو نے اس کی منظوری دے کر عمل آوری کے حوالہ سے جو کردار ادا کیا اگروہ کسی مغربی ، یوروپی ملک، جاپان ، جرمنی یا چین میںہوتے تو اب تک اس گھنائونے جرم کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکادیئے گئے ہوتے لیکن یہاں چونکہ الٹی گنگا ایک نہیں بلکہ بیک وقت کئی گنگائیں بہتی ہیں اور ہر کا م کا باوا آدم ہی نرالا ہے ان کے اس فخریہ کارنامہ کی اعلیٰ سیاسی اور حکومتی سطح پر شاباشی دی گئی بلکہ ایک آفیسر کو بعدمیں ایک ضلع کے سربراہ کے طور پر تعیناتی عمل میںلائی گئی۔ ڈل جھیل کی عظمت رفتہ کی بحالی کی بجائے اس کی وسعتوں اور لمبائی چوڑائی کا تحفظ یقینی بنانے کی بجائے اس کے ایک حصے کی بھرائی کا یہ سیاہ کارنامہ ان آفیسروں کے ماتھے پر ایک بدنما سیاہ دھبہ ان کی قبر وں تک ان کے ساتھ رہے گا۔
زائد از پچاس فیصد شہری سڑکوں کی یہ سمارٹ خستہ حالی جہاںٹریفک کے ابتر ترین جام کا اور نقل حمل کے حوالہ سے لوگوں کیلئے انتہائی تکلیف دہ کاموجب بن رہی ہے وہیں واردِ کشمیر ہورہے ہیں سیاح اس حالت زار کو دیکھ کر ششدر اور حیران ہیں۔ یہ سیاح وادی میں اپنے مختصر قیام کے دوران جہاں بدترین اور ریکارڈ توڑ بجلی بحران سے ذہنی تکالیف سے جھوج رہے ہیں وہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ کی سیاحت خستہ سڑکیں انہیںواپس اپنے گھروں کی طرف رُخ کرنے پر مجبور کررہی ہیں۔
سمارٹ سٹی منصوبے پر بے ہنگم عمل آوری اور لٹیرانہ طرزعمل جہاں سرینگر شہر کو اپنے مخصوص تاریخی ورثہ اور منفرد تشخص سے محروم کرچکا ہے وہیں جگہ جگہ کھنڈرات کا سا منظرنامہ لوگوں کی ذہنی اور نفسیاتی پریشانیوں اور جسمانی ازیتوں کا بھی موجب بن چکا ہے۔لیکن ایڈمنسٹریشن انسانی لالچی ہاتھوں سے ہوئی خستہ حالت پر ایک آنکھ بھی نم نہیں ہورہی ہے بلکہ اب اشک شوئی کے مترادف برستی بارشوں کے اس موسم میں دو روز کے اندر سڑکوں پر میکڈم بچھانے کا فرمان جاری کردیاگیا۔
اس سمارٹ سٹی کا کیا جومحض چند روز کی بارش کے پانی کے نکاس کا کوئی پائیدار اور قابل اعتماد سسٹم کو وجود بخشنے سے معذور ہو۔ اگر چہ شہر کا نکاس آب سسٹم ایک مدت سے توجہ طلب بناہوا ہے لیکن سمارٹ سٹی کے حوالہ سے اس نظام کے لئے غالباً کوئی جگہ نہیں۔ سڑک چاہئے چھوٹی ہو یا بڑی فی الوقت جگہ جگہ زیر آب ہے جو اس بات کی منہ بولتی تصویر ہے کہ نکاسی آب کا مسئلہ سمارٹ سٹی کے باوجود سنگین ہی بنارہے گا جو شہریوں اور ٹرانسپورٹروں کے لئے وبال جان ثابت ہوتا رہے گا۔
ترقی، تعمیر وتجدید کے نام پر بے ہنگم اور بے ربط عمل آوری بادی النظرمیں قلیل المدتی تسلی اور راحت کا کچھ احساس دلاتی ہو لیکن بالآخر یہ توانائی، وسائل ، ذرائع اور فکروعمل کے زیاں پر ہی منتج ہوجاتی ہے۔ انگریزوں کے بعد مطلق العنان ڈوگرہ دور کے دوران تعمیر سرینگر کی کچھ مخصوص سڑکوںکی کشادگی کو دیکھ کر یہ احساس ہوتا تھا کہ اُس دور میں مستقبل کے حوالہ سے ضرورتوں کا کس قدر خیال رکھا گیا تھا لیکن ہمارے حکمران اور ان کی زیر سایہ ایڈمنسٹریشن کی سوچ حال اور مستقبل کے ضرورتوں کے حوالہ سے کتنی محدود اور ناقص ہے اس کا منہ بولتا یہ ثبوت کافی ہے کہ انہی سڑکوں کی کشادگی کو ختم کرکے محض چند فٹ تک محدود کردیا گیا جبکہ شہر سرینگر کے قلب میںواقع تاریخی پرتاپ پارک کو بھی کنکریٹ جنگل میں تبدیل کرنے کا کارنامہ انجام دیاجارہاہے ۔ سارا شہرنوا خواں ہے۔