نئی دہلی//(ویب ڈیسک)
چیف الیکشن کمشنر‘ سشیل چندرا نے جمعہ کو کہاکہ جموں کشمیر میں حد بندی کی مشق کے دوران آبادی ایک اہم لیکن واحد معیار نہیں تھا۔چندرانے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے کو ’ایک اکائی‘ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
چندرا، جو حد بندی پینل کے سابقہ رکن تھے جس نے اس ماہ کے شروع میں جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی تنظیم نو کے بارے میں اپنا حتمی حکم دیا تھا، نے یہ بھی کہا کہ پہلے کی حد بندی کے ساتھ ’بہت سارے مسائل‘ تھے اور اب ان کو درست کر دیا گیا ہے۔
وہ بعض حلقوں کی جانب سے تنقید پر سوالات کا جواب دے رہے تھے کہ آبادی کے تناسب سے دیکھا جائے تو جموں کے مقابلے کشمیر ڈویڑن کو کم سیٹیں ملی ہیں۔
چندرا نے پی ٹی آئی کو بتایا’’آبادی حد بندی کے معیارات میں سے صرف ایک ہے۔ آبادی کے علاوہ، حد بندی ایکٹ اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ کی دفعات کے مطابق چار دیگر معیارات ہیں جو کہتے ہیں کہ جسمانی حالات پر بھی غور کرنا پڑے گا، اور مواصلاتی سہولیات، عوامی سہولتیں اور اس علاقے کی انتظامی اکائیاں۔ تو یہ چار دیگر معیارات ہیں جن پر غور کرنا ہوگا۔ یہ (آبادی) ایک اہم معیار ہے لیکن واحد معیار نہیں ہے۔ اسے ذہن میں رکھنا چاہیے‘‘۔
چندرا‘جو ہفتہ کو سی ای سی کا عہدہ چھوڑ رہے ہیں نے کہا کہ جموں و کشمیر کو ایک اکائی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ ’’یہ مختلف حصوں میں (دیکھا) نہیں جا سکتا۔ یہ ایک واحد یونین ٹیریٹری ہے۔ پوری آبادی کو ۹۰ حلقوں میں نمائندگی دینی ہو گی۔ وادی (کشمیر) کو کم یا جموں (ڈویڑن) کو کم دیا گیا ہے۔ یہ۲۰؍ اضلاع اور ۲۰۷ تحصیلوں پر مشتمل ایک پوری اکائی ہے۔ ہمیں اسے ایک پوری اکائی کے طور پر دیکھنا پڑے گا‘‘۔
جموں و کشمیر پر حد بندی کمیشن‘ جو مارچ۲۰۲۰ میں تشکیل دیا گیا تھا‘ نے۵ مئی کو اپنی حتمی رپورٹ کو جاری کیا جس میں جموں خطے کو چھ اضافی اسمبلی سیٹیں اور ایک وادی کشمیر کو دی گئی اور راجوری اور پونچھ کے علاقوں کو اننت ناگ پارلیمانی سیٹ کے تحت لایا گیا۔
جموں ڈویڑن میں اب ۹۰ رکنی ایوان میں اسمبلی کی ۴۳؍ اور کشمیر کی ۴۷ نشستیں ہوں گی۔یہ تبدیلیاں مرکزی حکومت کی طرف سے مطلع کرنے کی تاریخ سے لاگو ہوں گی۔
اس سے پہلے سابقہ اسمبلی کی۸۷ نشستیں تھیں ‘جن میں کشمیر میں ۴۶‘ جموں میں۳۷؍ اور لداخ میں چار۔