سرینگر//
وادی کشمیر میں جاری شدید گرمی کی لہر اور مسلسل خشک موسم نے خطے کے اہم ترین معاشی شعبے باغبانی کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے ۔
ماہرین اور باغ مالکان کا کہنا ہے کہ موجودہ موسمی حالات نہ صرف موجودہ فصل کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ آنے والے برسوں میں پیداوار اور درختوں کی صحت پر بھی دور رس منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
وسطی کشمیر کے مشہور میوہ مرکز چرار شریف کے میوہ بیوپاریوں نے جاری شدید گرمی اور طویل خشک سالی پر گہری تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال ناشپاتی اور سیب کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ مقامی میوہ تاجروں کا کہنا ہے کہ اگر یہی موسمی حالات برقرار رہے تو پیداوار میں۶۰فیصد تک کمی ہو سکتی ہے ۔
چرار شریف سے تعلق رکھنے والے معروف میوہ بیوپاری شاہین امین نے یو این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ علاقہ ناشپاتی کے لیے پوری وادی میں مشہور ہے ، لیکن اس سال قیامت خیز گرمی اور بارشوں کی کمی نے درختوں کو تباہ کر دیا ہے ۔ پتے جھڑ گئے ہیں، پھل سوکھ رہا ہے ، اور درختوں کی نشو و نما رک گئی ہے ۔
امین نے مزید کہا کہ اپریل اور مئی میں ژالہ باری نے پہلے ہی کسانوں کو زبردست نقصان پہنچایا تھا اور اب شدید گرمی نے اُن کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے ۔ ہماری امیدیں تباہ ہو چکی ہیں، کسان سخت پریشان ہیں، اگر بارش نہ ہوئی تو رواں سیزن ہمارے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔
زرعی ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ اگر فوری طور پر مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو وادی کی میوہ صنعت کو طویل مدتی نقصان ہو سکتا ہے ۔ وہ حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ آبپاشی کے متبادل ذرائع، زرعی بیمہ، اور تکنیکی معاونت کو فوری طور پر یقینی بنایا جائے تاکہ کسانوں کو کچھ ریلیف فراہم کیا جا سکے ۔
جنوبی کشمیر کے ضلع شوپیاں سے تعلق رکھنے والے ایک باغبان ریاض احمد نے خبررساں ایجنسی سے گفتگو کے دوران کہا کہ بارش کی عدم موجودگی نے درختوں کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔
احمد نے کہا’’پانی نہ ہونے اور سورج کی شدت سے پھل جھڑ رہے ہیں، ان کا چھلکا خراب ہو رہا ہے اور معیار گرتا جا رہا ہے ۔ اگر یہ صورتحال برقرار رہی تو ہماری آمدنی شدید متاثر ہوگی‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی کے۶۰فیصد باغات بارش پر ہی انحصار کرتے ہیں، جہاں نہری آبپاشی یا ڈرپ سسٹم موجود نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ بغیر آبپاشی والے علاقوں میں درخت شدید تناؤ کا شکار ہو رہے ہیں، جس سے نہ صرف پھل کا سائز کم ہو رہا ہے بلکہ جلد جھڑنے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔ اس کے ساتھ درخت اگلے سیزن میں بھی پھل دینے کی صلاحیت کھو سکتے ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اگر یہ صورتحال یوں ہی برقرار رہی تو درختوں کے ڈھانچے کو بھی دیرپا نقصان ہو سکتا ہے اور ہزاروں باغبانوں کی آمدنی پر منفی اثر پڑے گا۔
واضح رہے کہ کشمیر میں۵ء۳لاکھ ہیکٹر رقبہ سیب کے باغات پر مشتمل ہے اور ۵۰فیصد سے زیادہ آبادی براہِ راست یا بالواسطہ طور پر باغبانی پر انحصار کرتی ہے ۔۲۰۱۷کی اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق سیب کی صنعت جموں و کشمیر کی جی ڈی پی میں۵ء۹فیصد حصہ رکھتی ہے اور سالانہ ۵ء۸کروڑ مزدوری کے دن فراہم کرتی ہے ۔
ماہرین اور کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ بارش پر منحصر باغات کے لیے آبپاشی اسکیموں کو فوری فروغ دیا جائے ، کسانوں کو بیمہ تحفظ دیا جائے اور موسمی پیشگوئی کے نظام کو مؤثر بنایا جائے تاکہ وقت پر ایڈوائزری جاری کی جا سکے ۔