سجاد لون کا رد عمل
شمالی کشمیر سے تعلق رکھنے والے جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے بھی آرٹیکل ۳۷۰پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ’’مایوس کن‘‘ قرار دیا۔
سماجی رابطہ گاہ پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے لون نے کہا: ’’انصاف ایک بار پھر جموں اور کشمیر کے لوگوں سے دور ہے۔ دفعہ۳۷۰ کو قانونی طور پر ختم کر دیا گیا ہوگا لیکن (یہ) ہمیشہ ہماری سیاسی خواہشات کا حصہ رہے گا۔‘‘
الطاف بخاری
’دفعہ۳۷۰پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کو ہم با دل نخواستہ قبول کرتے ہیں۔ گزشتہ ۷۵برسوں کے دوران یہ حقیقت ہم سے مخفی رکھی گئی کہ دفعہ ۳۷۰مستقل نہیں بلکہ عارضی ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بتایا کہ وہ مستقل نہیں بلکہ عارضی تھی۔ اور کورٹ کا فیصلہ ہے قبول تو کرنا ہی پڑے گا۔‘‘
بخاری نے مزید کہا ’’ دفعہ۳۷۰ایک سیاسی مسئلہ تھا جس پر سیاسی طور ہی بات چیت کرنی تھی، جسے سیاسی انداز میں ہی حل کرنا چاہئے تھے۔ اس کو کورٹ میں لے جانے کا فیصلہ ہی غلط تھا۔ شاید انہوں نے کورٹ کے فیصلہ پر سیاسی صورتحال کے بارے میں سوچا نہیں تھا۔ہم نے ۲۰۲۰میں اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی، اور وہ فیصلہ صحیح ثابت ہو رہا ہے کیونکہ ہم یہاں نوکریوں اور زمین کا تحفظ چاہتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر کرن سنگھ
’’دفعہ ۳۷۰کے حوالہ سے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر جموں و کشمیر کی اکثر آبادی خوش نہیں ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے جموں و کشمیر کے باشندوں نے سپریم کورٹ کا فیصلہ تسلیم کرنے اور اپنی توانائی جموں و کشمیر کی تعمیر و ترقی اور آئندہ انتخابات پر خرچ کرنے کا مشورہ دیا۔
کرن سنگھ نے کہا’’لوگوں سے میری مخلصانہ اپیل ہے کہ انہیں اب (سپریم کورٹ کے) ناگزیر فیصلہ کو قبول کرنا چاہئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اب یہ بات تسلیم کرنی چاہئے کہ اب جد و جہد کرنے یا دیوار کے ساتھ سر ٹکرانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ سپریم کورٹ نے دفعہ ۳۷۰کی منسوخی کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے سیاسی رہنماؤں کو بھی ’’عوام کو الیکشن کے لیے تیار کرنے اور منفی رویہ کے بجائے اپنی توانائی کو مثبت کاموں خاص کر الیکشن کی تیاری میں خرچ کرنے‘‘ کا مشورہ دیا۔
نئی دہلی
کانگریس نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل۳۷۰کو ہٹانے کے مودی حکومت کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے جس طرح برقرار رکھا ہے اس سے پارٹی احترام کے ساتھ متفق نہیں ہے۔
سینئر کانگریس قائدین پی چدمبرم اور ابھیشیک منو سنگھوی نے پیر کو یہاں پارٹی ہیڈکوارٹر میں جموں و کشمیر سے آرٹیکل ۳۷۰کو ہٹانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اپنے نااتفاقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی اعلی ترین پالیسی ساز ادارہ کانگریس ورکنگ کمیٹی کا عزم ہے کہ آرٹیکل۳۷۰؍اس وقت تک احترام کا مستحق ہے جب تک کہ ہندوستان کے آئین کے مطابق اس میں ترمیم نہیں کی جاتی۔
چدمبرم نے کہا’’ہم اس فیصلے سے بھی مایوس ہیں کہ سپریم کورٹ نے ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں کیا۔ کانگریس نے جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے مرکز کے فیصلے کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم اس سلسلے میں عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی مکمل ریاست کا درجہ فوری طور پر بحال کیا جائے اور لداخ کے لوگوں کی امنگوں کو بھی پورا کیا جائے‘‘۔
کانگریسی لیڈر نے سپریم کورٹ کی طرف سے اسمبلی انتخابات کرانے کی ہدایت کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ ریاست میں فوری طور پر اسمبلی انتخابات کرائے جائیں۔
چدمبرم نے کہا کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ انگ ہے کیونکہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کا عمل آزادی کے بعد مکمل ہوا تھا۔ جموں و کشمیر کے لوگ ہندوستانی شہری ہیں اور کانگریس ریاست کی سلامتی، امن، ترقی کے لیے کام کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔
اس موقع پر موجود کانگریسی لیڈرسنگھوی نے کہا’’ہم سپریم کورٹ کے فیصلے کے سامنے جھکتے ہیں، لیکن ملک کے ایک عام شہری کے طور پر میں کہہ سکتا ہوں کہ اس فیصلے میں تضاد ہے۔ فیصلے میں یہ نہیں بتایا گیا کہ ریاست کی حیثیت کو کیوں گھٹا کر اسے یونین ٹیریٹری بنایا گیا ہے، جب کہ دوسری طرف عدالت لداخ کو یونین ٹیریٹری بنانے کے فیصلے کو درست مانتی ہے۔ ایک ہی ریاست کے کسی حصے کو یونین ٹیریٹری بنانے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ دینا اور پھر اسی ریاست کے دوسرے حصے کو یونین ٹیریٹری بنانے کا جواز پیش کرنا تضاد ہے۔ یہ ایک آئینی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ فیصلے میں ایک طرف سرکاری یقین دہانی کو قبول کیا گیا ہے تو دوسری جانب آئندہ ستمبر تک انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔‘‘