نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے تعزیرات ہند کی دفعہ۱۲۴ اے(بغاوت) کے جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت جمعرات کو ایک بار پھر ملتوی کر دی۔
سپریم کورٹ نے سماعت کی اگلی تاریخ ۱۰مئی مقرر کی ہے ۔
چیف جسٹس این‘وی رمنا کی سربراہی والی تین رکنی بنچ نے مرکزی حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کی درخواست پر اگلے منگل کو اس معاملے کی سماعت کے لیے فہرست میں درج کرنے کی ہدایت دی۔متعلقہ فریقوں کو ہدایت دی گئی کہ وہ ہفتہ تک تحریری طور پر حلف نامہ کے ذریعے اپنا فریق داخل کریں۔
چیف جسٹس نے آئندہ سماعت کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے ایک بار پھر واضح کیا کہ معاملہ ملتوی نہیں کیا جائے گا۔اس سے قبل حکومت نے دو دن اور پھر اتوار کو ایک دن کا اضافی وقت دینے کی درخواست کی تھی۔
۲۷؍اپریل کو سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہما کوہلی کی خصوصی بنچ نے حکومت سے ۳۰؍اپریل تک اپنا جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ ساتھ ہی بنچ نے اس معاملے کو نمٹانے کیلئے۵مئی کو سماعت کی تاریخ بھی مقرر کی اور واضح طور پر کہا کہ ایک سال سے زیر التوا معاملے میں التوا کی کوئی درخواست قبول نہیں کی جائے گی۔
حکومت نے اتوار کو ایک نئی درخواست دائر کرتے ہوئے کہا تھا کہ جواب تیار ہے ، لیکن متعلقہ حکام سے منظوری لینی باقی ہے ۔ اس لیے اس معاملے میں کچھ اضافی وقت درکار ہے ۔
اسی طرح۲۷؍اپریل کو حکومت نے کہا تھا کہ جواب تیار ہے لیکن اسے حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے ۔
اس معاملے کی آخری سماعت جولائی۲۰۲۱کو ہوئی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے عدالت عظمی نے اس کو جلد نمٹانے کی غرض سے حکومت سے۳۰؍اپریل تک جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔
چیف جسٹس رمنا نے پچھلی سماعت میں سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے دلائل سننے کے بعد انہیں ہدایت دی کہ وہ اس قانون پر مرکز کی جانب سے جواب داخل کریں، جس میں غداری کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا کے طور پر عمر قید کی سزا ہے ۔
۲۷؍اپریل کو، سپریم کورٹ کی تین رکنی خصوصی بنچ کے سامنے ‘ مہتا نے اپنی طرف سے کہا تھا کہ درخواستوں کا جواب تقریباً تیار ہے ۔ اسے حتمی شکل دینے کے لیے دو دن درکار ہیں۔ اس پر بنچ نے کہا تھا کہ ہفتے کے آخر تک اپنا جواب داخل کردیں۔
غداری قانون کے خلاف درخواستیں میسور میں مقیم میجر جنرل (ریٹائرڈ) ایس جی وومبٹکرے ، ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا اور دیگر نے دائر کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے(۱۵جولائی۲۰۲۱کو) بغاوت کے قانون کے غلط استعمال پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور پوچھا کہ آزادی کے تقریباً ۷۵سال بعد بھی اس قانون کی کیا ضرورت ہے ؟
سپریم کورٹ نے’’کیدار ناتھ سنگھ‘‘ کیس(۱۹۶۲)میں خاص طور پر واضح کیا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ۱۲۴؍اے کے تحت صرف وہی کارروائیاں، جن میں تشدد یا تشدد پر اکسانے والے عناصر شامل ہوتے ہیں، بغاوت کے زمرے میں آتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ میں دائر درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ ۱۲۴؍ اے آئین کے آرٹیکل۱۹ (۱) (اے)کے تحت بیان کردہ آزادی اظہار کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔