ایک بات تو طے ہے کہ ڈل… جھیل ڈل ہم سے ناراض ہے‘اسی لئے وہ ہمیں کوئی خوشی نہیں دے رہی ہے … بالکل بھی نہیں دے رہی ہے ۔کوشش بہت کوشش کی ‘ لیکن اس کی ناراضگی ہے جو ختم نہیں ہو تی ہے … ختم ہو نے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔جو بھی ڈل جاتا ہے ‘اس جھیل کی سیر کو جاتاہے ‘ اللہ میاں کی قسم وہ خوش ہو کر لوٹ نہیں آتا ہے … بالکل بھی نہیں آتا ہے کہ اس کے چہرے پر اداسی ہوتی ہے … وہ افسردہ ہو تا ہے اور … اور سو فیصد ہوتا ہے ۔لوگ جھیل کی سیر پر جاتے ہیں ‘ خوش ہونے کیلئے جاتے ہیں اور جھیل کو خوش کرنے کیلئے بھی تاکہ اس کی تنہائیاں کچھ دیر کیلئے ہی سہی کم ہوں ‘ ختم ہوں…لوگ یقینا جھیل کی سیر سے لوٹ کر خوش ہو تے ہیں ‘ خود کو تر و تازہ محسوس کرتے ہیں … لیکن بے چاری جھیل کی ایسی قسمت کہاں… جھیل خود کو بالکل بھی تازہ محسوس نہیں کررہی ہے اور…اور اسی بات پر وہ نارض بھی ہے اور غمگین بھی ۔ تو سوال یہ ہے کہ جھیل ہم سے ناراض کیوں ہے … جھیل ہم سے خوش کیوں نہیں ہے‘ جھیل ہمیں خوشی کیوں نہیں دیتی ہے تو … تو جواب آسان ہے کہ جھیل صرف کچھ لوگوں کو خوشی دے رہی ہے…اور یہ وہ لوگ ہے جنہوں نے بدلے میں جھیل کو غم دئے ‘ آنسو دئے ‘زخم دئے …یہ وہ لوگ ہیں جن کے ذمہ جھیل کی خوشیوں … اس کی رونقوں … اس کی وسعتوں کو بحال کرنا تھا ‘ لیکن ان کم بختوں نے ایسا ویسا کچھ نہیں کیا ‘ انہوں نے جھیل کے حصے کی خوشیوں پر شب خون مارا … انہوں نے جھیل کی نہیں اپنی خوشیوں کا خیال رکھا … انہوں نے جھیل کی وسعتوں کے بجائے اپنی نجی تجوریوں کو وسعتیں دیں …انہوں نے وہ سب کچھ ہڑپ کر لیاجوجھیل کا تھا ‘ جو جھیل کیلئے تھا … نتیجہ یہ کہ جھیل کی رونقیں اور نہ اس کی وسعتیں بحال ہوئیں … اس کی مسکراہٹیں لوٹ آئیں اور… اور نہ اس کی خوشیاں ۔جب جھیل خود خوش نہیں تو بھیا یہ ہمیں کیسے خوشی دے سکتی ہے … اس لئے جھیل ناراض ہے ہم سے ناراض ہے کہ ہم اسے وہ خوشیاں نہیں دے سکیں جس کی یہ مستحکم تھی… جب ہم جھیل کو خوش نہیں رکھ سکے تو بھیا یہ ہمیں کیسے خوش رکھ سکتی ہے … نہیں رکھ سکتی ہے … بالکل بھی نہیں رکھ سکتی ہے ۔ ہے نا؟