یہ پہلا موقعہ ہے کہ جب کشمیر نشین سیاسی پارٹیوں نے ایک زبان ہوکر امریکی میوہ پر عائد اضافی محصول ہٹانے کے مرکزی سرکار کے فیصلے کو کشمیر کی میوہ صنعت کیلئے سم قاتل قرار دے کر مرکزی سرکار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ لیکن کشمیرکی طرف سے مرکزی سرکار کے فیصلے پر ردعمل ابھی آیا ہی چاہتا تھا کہ ایک سرکاری بیان سامنے آیا جس میں اور باتوں کے علاوہ نہ صرف امریکی میوہ پر عائد محصول کو ہٹانے کا دفاع کیاگیا بلکہ یہ بھی کہاگیا ہے کہ اس اقدام سے گھر یلو پیدا وارپر کوئی منفی اثر نہیں پڑے گا جبکہ یہ بھی کہا گیا کہ اس فیصلے کی رئو سے امریکہ نے ملک کی سٹیل انڈسٹری کی درآمدات پر عائد محصول جوابی اقدام کے طور ختم کردیا ہے۔
نیشنل کانفرنس اور دوسری سیاسی پارٹیوںنے اپنے ردعمل میں کہا کہ امریکہ کے مفادات کو تحفظ دینے اورملک کی سٹیل انڈسٹری کے مفادات کی خاطر کشمیرکی میوہ صنعت کو تقریباً دائو پر لگایا جارہا ہے۔ اپنی پارٹی کے سید الطاف بخاری، پی ڈی پی کی محبوبہ مفتی، پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون ، سی پی ایم کے محمدیوسف تاریگامی اور کشمیر فروٹ انڈسٹری سے وابستہ گان نے بھی مرکزی سرکار کے اقدام کو کشمیر کی میوہ صنعت کیلئے انتہائی ضرر رسان قراردیا ہے۔
کشمیر کا فروٹ بھلے ہی خوبصورت اور جازب نظر نہ ہولیکن اس کی لذت فطرتی ہے اور اسی لذت نے کشمیر کے پھل کواب تک سہارا دے رکھا ہے۔ امریکہ ہو یا یوروپ کا کوئی ملک ، افغانستان ہویا ایران کشمیرکے فروٹ کا نہ ہم سر ہوسکتاہے اور نہ لذت کے معنوں میں اس کا ہم پلہ، البتہ ان ممالک کے پاس جدید طرز کی سہولیات ہیں، میوہ کے مختلف اقسام کی شل لائف پائیدار ہے، کولڈ سٹوریج کی ہرسہولیت دستیاب ہے جبکہ میوہ کی درجہ بندی، پیکنگ اور مارکیٹنگ کے حوالہ سے جدید ترین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایاجارہاہے۔
ان سہولیات کے برعکس کشمیرکامیوہ غریب اور پسماندہ ہے، درختوں سے پھلوں کے حصول ، موقعہ پرہی ڈبہ بند کرکے گاڑیوں میںلوڈ کرمنڈیوں کی جانب روانگی تک ہی سب کچھ محدود ہے۔ کشمیرکی میوہ صنعت ، جس کی پیداواری صلاحیت میں اب بتدریج اضافہ ہوکر ۲۰۔ ۲۵؍ لاکھ میٹرک ٹن تک پہنچ چکی ہے، کو ترقی دینے،سہولیات کے حصول کو ممکن بنانے ، ضلع سطح پر (کم سے کم) کولڈ سٹوریج کی سہولیت کی سمت میں از خود سرمایہ کاری کرنے اور میوہ کی بیرون کشمیر منڈیوں تک وقت پر اور بغیر کسی روک یا خلل کے ڈھلائی کو یقینی بنانے کیلئے اپنا ٹرانسپورٹ نظام کو وجود بخشنے کی سمت میں صدیاں گذر جانے کے باوجود کوئی قدم نہ اُٹھانے کیلئے صنعت سے وابستہ سارے افراد اور ادارے خود ذمہ دار ہیں۔ اگر یہ ساری سہولیات دستیاب ہوتی تو امریکہ یا کسی اور ملک کا پھل ملک کی منڈیوں تک آبھی جاتا تو کسی طرح کی پریشانی نہ ہوتی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر کا میوہ صنعت سے وابستگان کی توجہ ، توانائی اور نگاہیں میوہ کی ڈھلائی اور منڈیوں تک اس کی رسائی کے بعد بیوپاریوں سے پیسہ کی وصولی تک ہی محدود رہا اور ہے۔
حکومت کی اپنی ترجیحات اور ضرورتیں ہیں،حکومت بین الاقوامی سطح پر کاروبار اور تجارت کے حوالوں سے کچھ معاہدات پر عمل آوری کی پابند ہے، اس تعلق سے ڈبیلو ٹی او(WTO) کی کچھ پابندیاں اور بندشیں ہیں جن کی تعمیل ہر رکن ملک کیلئے لازمی ہے۔ ہندوستان مستثنیٰ نہیں ۔
سیاستدان وقتی مصلحتوں کے تحت ردعمل کے طور بیانات تو دیتے ہیں لیکن گاہے گاہے حکمران بھی رہے ہیں اور اس حیثیت سے انہیں عالمی سطح پر تجارتی پابندیوں اور ضابطوں کا اچھی طر ح سے ادراک ہونا چاہئے۔ لیکن اس کے باوجود وہ زمینی حقائق کو نظرانداز کررہے ہیں اور بیان بازی کا سہارا لے کر اپنا اپنا سیاسی الو سیدھا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب وہ اقتدار میں تھے تو کشمیر کی میوہ صنعت کی ترقی اور تحفظات کی سمت میں کیا کوئی کارنامہ انجام دیا، جب اس تعلق سے نگاہ دوڑائی جاتی ہے تو جواب نفی اور مایوسی سے عبارت ہی ملتا ہے۔
گذرے ۷۵؍سال کے دوران کشمیر کی میوہ پیداوار کو تحفظ عطاکرنے اور شل لائف کوپائیدار بنانے کی سمت میں کتنے کولڈ سٹویج قائم کئے گئے ، پیداوار کا ایک اچھا خاصہ حصہ زمین پر از خود گررہاہے جس کو عام اصطلاح میں کلٹ فروٹ کہاجارہاہے، حکومتی سطح پر اس حصے کی خریداری کی سمت میں انٹرویشن سکیم متعارف کی جاتی رہی جس کے تحت ۲، ۳ روپے فی کلو کے حساب سے خریداری کی جاتی رہی ہے لیکن بحیثیت مجموعی پید اوار کے کچھ حصوں کو ’جام ‘ یا فروٹ ڈرنکس میںتبدیل کرنے کی سمت میں ایک بھی فیکٹری کا قیام عمل میںنہیں لایاگیا ، البتہ اس حوالہ سے کچھ دعویٰ سامنے آتے رہے ہیں لیکن وہ داستان پارینہ ہے۔
بہرحال میوہ کی ڈھلائی کیلئے ایڈمنسٹریشن کی جانب سے مسلسل یہ یقین دہانی کرائی جارہی ہے کہ قومی شاہراہ پر میوہ ٹرکوں کی نقل وحرکت کو بغیر کسی مزاحمت، خلل یا روک ٹوک کے یقینی بنانے کیلئے مناسب اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران یہ تلخ تجربہ رہا کہ قومی شاہراہ پر میوہ سے لدے ٹرک کئی کئی روز تک روکے جاتے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف میوہ ٹرکوں میں ہی سڑکر تلف ہوتا رہا بلکہ تاخیر سے منڈیوں تک پہنچ جانے پر متعلقہ بیوپاری ڈیلوری لینے سے بھی گریزاں رہے۔
ایڈمنسٹریشن کا یہ تازہ ترین اقدام میوہ بیوپاریوں کیلئے ایک بہت بڑی راحت ہے جس سے استفادہ حاصل کرنے کیلئے میوہ صنعت سے وابستہ افراد اور اداروں کو بھی چاہئے کہ وہ میوہ کی ڈھلائی کیلئے اپنے طور سے اقدامات اُٹھائیں۔ میوہ کی ڈھلائی ، ٹرانسپورٹ کی دستیابی اور منڈیوں تک رسائی کیلئے سارا بوجھ ایڈمنسٹریشن پر ڈالنا مناسب نہیں، یہ میوہ صنعت سے وابستہ افراد کا کاروبار ہے، اپنے کاروبار اور مفادات کی رکھوالی وابستہ افراد اور اداروں کی اپنی ذمہ داری ہے ، سرکار زیادہ سے زیادہ ایک سہولت کار کا رول اداکرسکتی ہے۔
حیلے بہانوں کی آڑ میں چھپنے اور غیر ملکی پھل کی برآمدات پر عائد اضافی محصول ہٹانے کے مطالبات اور غیر لچک دار طرزعمل اپنانے سے کشمیر کی میوہ صنعت اور وابستہ مفادات کو ذرہ بھر بھی نہ کوئی تحفظ عطاکیا جاسکتا ہے، نہ اس کی ترقی کے حوالہ سے کسی زینے پر پائوں رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی اور مفاد کے حصول کو یقینی بنانے کیلئے کوئی راستہ ہموار کیاجاسکتا ہے ۔ ضرب المثل ہے، خدااُن کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کریں۔