تحریر:ہارون رشید شاہ
ہمارے ایک اچھے دوست ہیں جن پر آجکل سیاستدان بننے کا بھوت سوا ر ہو گیا ہے … ہم جانتے ہیں کہ کچھ دن بعد یہ بھوت خود بخود اتر جائیگا کیونکہ ان جناب پر اس طرح کے دورے پڑتے رہتے ہیں۔یہ کبھی کچھ تو کبھی کچھ بننے کا منصوبہ بناتے رہتے ہیں ‘ لیکن جو یہ بن سکتے ہیں ‘ جو یہ بن جانے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے ہیں اس پر انہوں نے کبھی توجہ دی اور نہ دلچسپی کا مظاہرہ کیا ۔ کل دفتر آئے توسیاستدان بننے کا آسان سا نسخہ بتانے کی ضد کرنے لگے ۔اب بھلا ہم انہیں کیسے بتا سکتے تھے کہ سیاستدان کیسے بنتے ہیں یا کیسے نہیں بنتے ہیں ۔ لیکن ہم یہ بھی جانتے تھے کہ ’نسخہ‘ حاصل کئے بغیر یہ ہماری جان بخشنے والوں میں سے نہیںہے …ہم نے دوست سے کہا کہ سیاست میں داخل ہونے کیلئے سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ آپ کا کوئی نظریے نہیں ہو نے چاہئے ‘ آپ کسی خاص یا مخصوص نظریے کے قائل اور پابند نہیں ہونے چاہئیں …ہماری یہ بات سن کر دوست حیران ہو گئے کہ بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ کوئی نظریے نہیں ہونا چاہیے …؟ہم نے دوست سے کہا کہ یہ سیاست میں شرط اول ہے ۔’’کیسے؟‘‘ دوست نے پوچھا ۔ہم نے اسے کہاکہ اگر آپ کسی خاص نظریے کے قائل ہیں تو… تو یہ بات آپ کو سیاست میں آگے بڑھنے نہیں دے گی … آپ کی ترقی کی راہ میں حائل ہو جائیگی …آپ ایک ہی سیاسی جماعت میں پھنس کے رہ جائیں گے … آپ اس سے باہر نہیں پائیں گے جبکہ سیاست میں آگے بڑھنے کیلئے سیاسی جماعتوں میں آنا جانا ہی کامیابی اور ترقی کا سب سے بڑا راز ہے ۔سیاستدان تو ایسا ہی کرتے ہیں… جس سیاسی جماعت کا سورج ڈوبنے والا ہو‘ یا ڈوب رہا ہو اس سے باہر آکر کسی ایسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں جو اقتدار میں ہو یا جس کا اقتدار میں آنا یقینی ہو۔ ایسا تب ہی ممکن ہے جب آپ کا کوئی خاص سیاسی نظریے نہ ہو … اور اللہ میاں کی قسم کوئی مخصوص سیاسی نظریے ہو نابھی نہیں چاہیے کہ … کہ پھر آگے بڑھنے کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں… ہم نے اپنے دوست کو یہ پر خلوص مشورہ دیا … اب اس پر عمل کرنا یا نہ کرنا اس پر منحصر ہے کہ … ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ اس کے سر سے سیاستدان بننے کا بھوت اتر جائے اور… اور جلد اتر جائے ۔ ہے نا؟