چلئے صاحب آج سے امر ناتھ یاترا… سالانہ امر ناتھ یاترا شروع ہو رہی ہے اور… اور یاتریوں کا پہلا قافلہ کشمیر آن پہنچا ہے…ہمیں امید سے زیادہ یقین ہے کہ اب کی بار بھی یاترا کامیاب ہو جائے گی… اسی طرح جس طرح گزشتہ سال ہو ئی تھی… جب ہزاروں اور لاکھوں یاتریوں نے کشمیر کا رخ کیا اور… اور کشمیر اور کشمیریوں کو میز بانی کا شرف بخشا تھا…یاترا اس لئے بھی کامیاب ہو گی… کہ ملک کشمیر کی حکومت نے اس حوالے سے بڑی محنت کی ہے… بڑی محنت کر رہی ہے… کئی ہفتوں اور مہینوں سے کررہی ہے ۔محنت تو اس سے پہلے بھی کی جا رہی تھی ‘ لیکن اب کی بار کچھ زیادہ ہی کی جا رہی ہے۔اور اس لئے کی جا رہی ہے کیونکہ۲۲؍اپریل کو بائسرن میں جو کچھ ہوا …اس سے یقینا لوگوں میں حفاظت کے حوالے سے کچھ خدشات پیدا ہو ئے اور…اور حکومت نے ان خدشات کو دور کرنے کیلئے محنت کی… خوب محنت کی اور اس محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ اب تک لاکھوں یاتریوں نے خود کو یاترا کیلئے رجسٹر کیا ہے ۔ اور ویسے بھی ہمارا خیال ہے کہ یاترا کیلئے جس نوعیت کے انتظامات کئے جاتے ہیں یا کرنے درکار ہوتے ہیں اس اس بات کا متقاضی ہے کہ یاترا کیلئے ایک الگ وزارت قائم کی جائے …تاکہ یاتریوں کا خاص خیال رکھا جائے… ان کیلئے اچھے انتظامات کئے جائیں … ان کی اچھی طرح دیکھ بھال کی جائے ‘ ان کی ضرورت کا خیال رکھا جائے اور … اور اس لئے رکھا جائے کہ آخر یہ ٹھہرے ہمارے مہمان…تین چار لاکھ مہمان… ان کیلئے الگ وزارت قائم کی جائیگی تو… تو اس سے صاحب ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ…کہ سرکار … کشمیر کی سرکار کشمیر میں رہ رہے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کا بھی خیال رکھ پائیگی ‘ ان کی ضرورتو ں کا خیال‘ ان کی مشکلات اور مسائل کا خیال… ان کی طرف بھی توجہ دے پائیگی … کہ … کہ مانتے ہیں کہ کشمیر کے لوگ یاتریوں کے میزبان ہیں ‘ یہ بھی مانتے ہیں کہ میزبانی میں کشمیر کے لوگوں کا کوئی ثانی نہیں ہے… اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ … کہ کشمیر کے لوگوں کے عملی تعاون ‘ ان کے اشتراک ‘ ان کی حمایت ‘ ان کے سپورٹ سے ہی یاتراکامیاب ہوتی ہے اور… اور آئندہ بھی ہو گی … لیکن… لیکن صاحب میزبانوں کی بھی طرف تو تھوڑا توجہ دینی ہو تی ہے نا… ان کا بھی اگر زیادہ نہیں تو… تو کم ہی سہی ‘ لیکن… لیکن خیال تو رکھنا ہو تا ہے … ہے نا؟