نئی روشنی کا فرعون نے جنم لے لیا ہے، فی الوقت اپنی فرعونیت کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے۔ زمانہ قدیم میں بہت سارے فرعون ، نمرود، ہلاکو پیدا ہوتے رہے ، جنہوںنے ’خدائی ‘ کا دعویٰ کیا۔ رسالت مآبﷺ کے زمانے میں بھی کئی کذاب اپنے آپ کو پیغمبر ی کا دعوی لے کر جلوہ گر ہوتے رہے ،لیکن اپنے اپنے زمانے نے ان کا بھی حشردیکھ لیا، لیکن اس نئے فرعون کا حشران سے کچھ مختلف نہیں ہوسکتا ۔
یہ نئی روشنی کا فرعون اور کوئی نہیں پاکستان کا عمران خان ہے جس کا تازہ ترین دعویٰ ہے کہ ’’مجھ جیسا دُنیا کا قدآور اور کوئی سیاست دان نہیں، مجھ جیسا بولنے ،سوچنے اور عمل کرنے والا دُنیا میں کوئی نہیں، اور میں عصر حاضر کا پیغمبر (نعوذباللہ) ہوں‘‘۔ یعنی عمران خان اپنے آپ کو پیغمبر سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کو ان کی زیر قیادت اندھے جاہل اور سیاسی دیمک کے حامل ذہنیت کے لوگ، سوشل میڈیا اور کچھ سابق حکومتی کردار اپنے اس فرعون سے چند قدم آگے بڑھ کر پاکستان کی مختلف میڈیا چینلوں کا سہارا لے کر ’کہہ رہے ہیں کہ آسمان پر اللہ ہے اور اس کے بعد زمین پر عمران خان پیغمبرانہ(نعوذباللہ) درجہ اور خصوصیات رکھتے ہیں۔
پاکستان کی آج کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس سرزمین پر لاتعداد اسلامی اسکالر ، مذہبی علماء، مفتیان، میرواعظان، مشائح حضرات موجود ہے لیکن ابھی تک کسی نے یہ جرأت نہیں کی کہ وہ عمران کی اس فرعونیت اور تشبیہ کی ملامت کرے، تکذیب کرے اور انہیں مشورہ دے کہ وہ عصر حاضر کا فرعون نہ بنے۔ البتہ ان کی سابق کابینہ کے ایک رکن مولانا اشرفی نے میڈیا پر تکذیب میں بیان دیا اور اپنے سابق لیڈر کو مشورہ دیا کہ وہ خودکو پیغمبر سے تشبیہ نہ دے اور توبہ کرے۔
یہ عمران خان کی جاہلانہ عقائد پر مبنی سیاست کاایک چہرہ ہے ۔ا س سیاسی خباثت کا دوسرا مگر کریہہ چہرہ محض چند گھنٹے قبل مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ میں جلوہ گر ہوا جب نئے وزیراعظم شہباز شریف اپنے کچھ ساتھی وزراء کے ساتھ وہاں موجود تھے اور عمران خان کے حامیوں نے انکے خلاف چور، ڈاکو کے نعرے لگائے اور ان کے خلاف مظاہرے کئے، بھلے ہی وہ چور اور ڈاکو ہوں لیکن یہ لوگ رسالت مآبﷺ کے دربارمیں حاضری دینے آئے تھے۔ ان دیمک زدہ سیاسی جاہلوں اور اندھی شخص پرستی کے جنون میںسراپا غرق لوگوںنے نہ مسجد نبویﷺ اور نہ ہی رسالت مآبﷺکی موجودگی کا کوئی احترام بجا رکھا، جس پیغمبر ﷺ کے بارے میں قرآن میں واضح ،صاف اور دوٹوک الفاظ میں حکم ہے کہ لوگواپنی آواز یں نیچی رکھو ۔ انہوںنے اللہ کے اس فرمان کو بھی کسی خاطرمیں نہیں رکھا۔
مسجد نبوی ﷺ میںعمران کے اندھے جاہلوں کے خلاف سعودی حکام نے کریک ڈائون کاآغاز کردیا ہے اور مظاہروں میں شریک غنڈہ افراد کی نشاندہی کرکے انہیں گرفتارکیا جارہاہے۔ اس کے بعد ان کے خلاف کیا کارروائی ہوگی قطع نظراُس کے ان لوگوں نے اپنے بارے میں،ا پنے لیڈر فرعونی خصلت اور ذہنیت کے عمران خان کے بارے میںاورسب سے بڑھ کر اپنے ملک کے بارے میں بین الاقوامی سطح پرجس شبیہ کو پیش کیا وہ اور کچھ نہیں ایک دھبہ ہے اور ناکام سٹیٹ کے آوارہ گرد متحرک سائیوں کی خصلت اور فطرت ثانی پر مہر تصدیق ہی ثبت کررہاہے۔
بہرحال کسی بھی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان کو اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل میں اپنے نظریے کی سیاست کرنے اور اسی کو بُنیاد بناکر لوگوںکو اپنا ہم خیال بنانے کا پورا پورا حق ہے لیکن سیاسی عزائم اور مقاصد کی تکمیل کیلئے اسلام کااستعمال، قرآن کا استعمال، حدیث کی سیاق وسباق سے توڑ کر پیشکش اور ان مقدس ناموں پر عوام کو گمراہ کرنے اور انکے ذہنوں میں خلفشار کے کیڑے سرائیت کرنے کی نہ کوئی اسلامی فکر یا روایت موجود ہے ، نہ کوئی اخلاقی جواز ہے اور نہ ہی کوئی بھی معاشرتی اقدار ماسوائے جس کی بُنیاد جہالت اور توہم پرستی سے عبارت ہو اجازت دے رہاہے۔
سیاستدان جمہوری اقدار اورآئین کی روشنی میں سیاسی نظریہ اختیار کرسکتاہے یا فسطائیت یا رجعت پسندانہ نظریہ پر اپنا سیاسی نریٹو وضع کرکے پیش کرسکتاہے لیکن جو شخص خود کو دُنیا کا واحد اور اکیلا قدآور سیاستدان ہونے کا (جھوٹا) دعویٰ کررہاہو، جس سیاستدان کو امر باالمعروف والنہی عن المنکر کا صحیح معنی اور مفہوم کے حوالہ سے ا ب ج د تک کی علمیت نہ ہو، اپنے جلسوں میںمقدس فرمودات کو صحیح طور سے پیش کرنے تک کی صلاحیت نہ ہو وہ آج خود کو پیغمبر (نعوذ باللہ) سے تشبیہ دے رہا ہے جبکہ دوسری طرف اپنے اندھے اور سیاسی اعتبار سے جاہل حامیوں کو محض اپنے سیاسی دُشمنوں کا سایہ نظرآنے پر روضہ رسولﷺ کے تقدس تک کو پامال کرنے کی ہدایت بھی دے رہا ہے، سرپرستی بھی کررہاہے ، اُکسا بھی رہاہے لیکن اس سب کے باوجود نئی روشنی کے اس فرعون کو اس سب پر ذرہ بھر بھی شرم نہیں ، ندامت نہیں،گردن جھکی نظرنہیںآرہی ہے بلکہ اس ننگا ناچ کے بعد تکبر، نخوت اور غرور کا فرعونی اور نمرودی سراونچا رکھ کر اپنے ملک کو شرمسار کررہاہے۔
اسی پر بس نہیں ان کی سابق کابینہ کے کچھ وزراء اب اس انتہائی توہین آمیز اور شرمناک واقعہ پر اپنی بغلیں بجارہے ہیں سوشل میڈیا کا ناجائز استعمال کرکے اس مخصوص غنڈہ گردی سے کہیںزیادہ آگے بڑھ کر مخاصمت ، ٹکرائو اور دھمکیوںکی پیش گوئیاں کررہے ہیں۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی قریب میںجب ہرسال کچھ ایرانی زائرین ایام حج کے دوران اپنی نظریاتی سیاست اور سعودی رقابت کی آگ میں جل کر مظاہرہ کرکے حرم پاک کے تقدس کو پامال کرنے کے مرتکب ہوتے رہے تو بالآخر سعودی حکومت نے ایرانی زائرین کی آمد پر پابندی لگادی تھی۔ اس مخصوص واقعہ کے ردعمل میںہوسکتاہے کہ سعودی حکام پاکستانیوں کے خلاف کچھ ایساہی فیصلہ کریں۔ ایسے لوگوں کو دربار رسالت مآب ﷺ اور حرم پاک میںحاضری سے روکنا قرین انصاف ہے۔