کشمیرمیں قیام امن کی کوششوں کی سمت میں اُٹھائے جارہے اقدامات اُسی وقت ثمرآور ثابت ہوسکتے ہیں جب زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ سبھی لوگ اپنا اپنا مثبت کرداراداکریں گے ۔ قیام امن کی سمت میں حالیہ کوششیں فی الوقت تک بار آور ثابت ہورہی ہیں لیکن کچھ عنصر وہ بھی ہیں جو امن نہیں چاہتے کیونکہ ایسے عنصر کی سیاسی وغیر سیاسی دکانیں فتنہ ،تخریب ، فساد اور شر سے ہی عبارت سجی ہوئی ہیں۔
دُنیا کے کسی بھی خطے پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ کہیں بھی سو فیصد امن نہیں ہے اور جہاں ایسا امن موجود بھی ہے، پایا بھی جارہاہے اور محسوس بھی کیاجارہاہے تو کچھ عنصر ضرورسماج میں ایسے بھی موجود ہوتے ہیں جو مختلف نظریات ، تحریر وتقریر ، اظہا ررائے کی آزادی، مختلف قوانین وغیرہ کی آڑ میں کوئی نہ کوئی فتنہ برپا کرتے ہیں۔ اسی ذہنیت کے حاملین کو اندرون خانہ کہیں نہ کہیں سے حمایت اور تعاون تو حاصل رہتا ہے لیکن خارجی سطح پر بھی انہیں تعاون اور مدد حاصل ہوتی ہے۔ کشمیرنہ مستثنیٰ ہے اور نہ آئندہ مستثنیٰ رہ سکتا ہے۔
خاص کر اس صورت میں کہ جب کشمیر پر بہت سارے لوگوں کی حریص اور توسیع پسندانہ نگاہیں ایک عرصہ سے مرتکز ہیں جبکہ لاکھ کوششوں کے باوجود یہ حریصانہ اور توسیع پسندانہ نگاہیں نہیں ہٹ پارہی ہیں ۔ اس تعلق سے جموںوکشمیرمیں کنٹرول لائن کے اُس پار سے وقفے وقفے سے دراندازی کی کوششیں، ڈرون کی وساطت سے ہتھیار اور منشیات کی سمگلنگ، سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ سرحد کے پار پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی کردارادا کرنے سے باز نہیں آرہا ہے اور کشمیر کی کچھ تنظیموں سے منسوب بیانات کو از خود اختراع کرکے کشمیرمیں خرمن امن کو آئے روز آگ کے شعلوں کی نذر کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
ابھی چند روز قبل کنٹرول لائن پر دراندازی کی ایک کوشش کے دوران فورسز نے ایک درانداز کو مار گرایا۔ اس درانداز کے بارے میں کہا گیا کہ وہ غیر ملکی غالباً افغانی تھا۔ جبکہ دراندازی کے ایسے ہی کچھ ایک واقعات میں کچھ مارے گئے دراندازوں کی مختلف وجوہات کی بنا پر شناخت ممکن نہیں ہوسکی ہے واضح ہے کہ ان ساری کوششوں، ارادوں اور عزائم کا بُنیادی مقصد وادی کشمیر میں امن کو برباد کرنے اور قیام امن کی سمت میں جاری کوششوں اور اقدامات کو سبوتاژ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں!
امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے اور وادی میں حالات کو خراب کرنے کیلئے میڈیا کی توسط سے گمراہ کن پروپیگنڈہ کرنے اور دراندازی کاراستہ اختیار کرنا واضح طور سے دو آسان اور کم لاگت والے آپشن ہیں۔ یہی دو آپشین کشمیرکے تعلق سے سرحد کے اُس پار سے گذشتہ ۷۵؍ سالوں سے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ اگر چہ جموں وکشمیرمیں بین الاقوامی سرحد کے راستے دراندازی کو مکمل طور سے ختم کردیاگیاہے جس کا اعتراف ابھی چند روز قبل بی ایس ایف کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بھی کیا ہے لیکن کنٹرول لائن، جس کے حوالہ سے جنگ بندی اب زائد از دو سال سے کامیابی کے ساتھ نافذ العمل ہے، کے راستے وقفے وقفے سے دراندازی کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں۔
اس راستے غیر ملکی جنگجو، دہشت گرد اور مسلح جتھوں کا تعلق جہاں پاکستان کے مختلف سرحدی علاقوں سے رہا ہے وہیں افغانی بھی سرزمین کشمیر کو اپنا پلے گرائونڈ تصورکررہے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کشمیر کے حوالہ سے ماضی میں افغانیوں کا کردار کیارہاہے افغانیوںنے کشمیر پراپنے غاصبانہ اور جابرانہ اور لٹیرانہ طرزعمل اور ذہنیت پر مبنی قبضہ کے دوران کشمیر یوں اور کشمیرکے ساتھ کیا کچھ کیا ، وہ سارا کچھ کشمیر کی تاریخ میں موجود ہے۔ کشمیرکے ہاتھوں شکست کے باوجود افغانی بھی کچھ دوسرے قوموں کی طرح کشمیر پر اپنی حریصانہ نگاہیں نہیں ہٹارہے ہیں۔
ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات اور رشتے تاریخی ہیں اوریہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ دہلی نے ہر مشکل ترین دورمیں افغانیوں کی مدد کی ہے۔ چاہئے افغان پناہ گزینوں کو پناہ دینے کی بات ہو،افغانی طلبہ کو تعلیم وتربیت اور سکالرشپ فراہم کرنے کا معاملہ ہو، طبی امداد کی دستیابی، خود افغانستان کے اندر تعمیر نو کے پروجیکٹوں میںمالی اورتکنیکی سرمایہ کاری کامعاملہ ہو ہندوستان نے کبھی ہاتھ نہیں کھینچا۔ لیکن افغانی ہیں کہ انہیں یہ احسانات یادنہیں۔
اس وقت بھی جبکہ افغانستان پر طالبان کی حکومت ہے دہلی بدستور امداد فراہم کررہاہے۔ افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے ایک قدم کے سوا دہلی ہر شعبے میں افغانیوں کا سہارا بنی ہے لیکن احسان فراموش افغانی کنٹرول لائن کے راستے درانداز ہونے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اس طرح وہ اپنے قریبی ہمسایہ کے کشمیر کے حوالہ سے اس کے منصوبوں اور عزائم کے خاکوں میں رنگ بھرنے میںمعاونت کررہے ہیں۔
ہم نہیں چاہتے کہ دہلی افغانستان کی تعمیر نو میں اپنا کردار اور تعاون ختم کردے لیکن یہ ضرور چاہتے ہیں کہ افغانستان کی طالبان حکومت پر یہ بات واضح کردی جائے کہ یہ جو کچھ بھی امداد تعمیر نو کی سمت میں فراہم کی جارہی ہے وہ اس بات سے مشروط ہے اور ہوگی کہ کوئی افغانی یا افغانستان کی سرزمین پر موجود دوسرے کسی ملک سے وابستہ دہشت گرد واردِ کشمیر ہونے کی کوشش کرے، اس کی روک تھام کی تمام تر ذمہ داری افغان حکومت کی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی کشمیرکے بارے میں منفی منظرنامہ پیش کیاجارہاہے۔ پاکستان اپنے سپانسرڈ منظور نظر گروپوں کو دُنیا کی مختلف راجدھانیوں میںروانہ کرکے کشمیر کے بارے میں گمراہ کن منظرنامہ پیش کرکے دوطرفہ تعلقات کو ہی زک نہیں پہنچا رہاہے بلکہ کشمیر کے وسیع تر مفادات کو بھی زک پہنچانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے۔ اس تعلق سے ابھی گذشتہ ہفتے ایک وفد نے ترکیہ کی راجدھانی انقرہ میںترکیہ کے اعلیٰ سفارت کاروں سے ملاقات کی اور کشمیرکے بارے میں بہت سارے دعویٰ پیش کئے۔ اس طرح کی سرگرمیاں بھی کشمیرمیں امن کی راہ میں نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہیں، جو واقعی دہلی کے لئے ایک نیا اُبھرتا چیلنج ہے۔