اگر یہ سچ ہے… جی ہاں اگر یہ سچ ہے کہ … کہ سیاستدانوں اور حکمرانوں کی تقاریر لکھنے والے ہو تے ہیں… یعنی سیاستدان اور حکمران خود اپنی تقاریر نہیں لکھتے ہیں تو … تو اپنے ایل جی صاحب کی تقاریر لکھنے والے… ان کے لکھاری خوش قسمت ہیں اور… اور سو فیصد ہیں ۔اور اس لئے ہیں کہ انہیں بیٹھے بیٹھے تنخواہیں … موٹی موٹی تنخواہیں یا معاوضہ ملتا ہے اور… اور اس لئے ملتا ہے کہ اب انہیں ایل جی صاحب کی تقاریر لکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے اور… اور اس لئے نہیں پڑتی ہے کیونکہ اپنے سنہا صاحب جہاں بھی جانتے ہیں… جہاں بھی ‘کشمیر کے اندر یا باہر ایک ہی بات‘ ایک ہی تقریر دہراتے ہیں… کچھ اس تواتر کے ساتھ کہ ہمیں یقین ہے کہ انہیں اپنی یہ تقریر زبانی یا د ہو ئی ہوگی … یہ تقریر کہ کشمیر میں اب سڑکوں پر تشدد نہیں ہو تا ہے … کشمیر میں اب لوگ اپنی مرضی کی زندگی گزارتے ہیں… کشمیر میں اب سال بھر اسکول اور کالیج کھلے رہتے ہیں… کشمیر میں اب ہڑتالیں قصۂ پارینہ ہے ‘ کشمیر میں اب لو گ دیر سے گھروں کو لوٹتے ہیں… کشمیر میں اتنے لاکھ اور کروڑ سیاح آئے ہیں اور آ رہے ہیں۔ اب دیکھئے نا کہ ایل جی صاحب اتنی بار یہ باتیں دہرا چکے ہیں کہ… کہ ہمیں بھی یاد ہو گئی ہیں … نہیں صاحب ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہے… اور بالکل بھی نہیں ہے‘ لیکن وہ کیا ہے کہ ایک ہی بات بار بار اور ہر بار سننے سے لوگ بور ہو جاتے ہیں… بور ہو گئے ہیں… ہمیں امید سے زیادہ یقین ہے کہ… کہ ایل جی صاحب اپنے لکھاریوں سے بھی تھوڑا بہت کام لیں گے… انہیں مفت کی روٹیاں توڑنے کا موقع نہیں دیں گے اور… اور آئندہ انہیں کچھ نیا لکھنے کو کہیں گے کہ… کہ کشمیر میں بہت کچھ ہو رہا ہے… اچھا ہو رہا ہے‘ جسے ضبط تحریر لاکر سنہا صاحب لوگوں کو سناسکتے ہیں… کہ …کہ اب تو ایل جی صاحب زائد از تین برسوں سے کشمیر میں براجمان ہیں اور… اور اس مدت کے دوران انہوں نے بہت کام کئے … اچھے اچھے کام کئے جو یہ صاحب لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں… جنہیں انہیںلوگوں کو پہنچانا چاہئے … تاکہ …ان کے لکھاریوں کو بیٹھے بٹھائیے ہی سب کچھ نہ ملے … جس کی انہیں اب عادت ہو گئی ہے ۔ ہے نا؟