نئی دہلی//
مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے پیر کو کہا کہ تنسیخ شدہ آرٹیکل ۳۷۰ جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا، شروع سے ہی ایک’عارضی‘ شق تھا اور آئین بنانے والوں نے اسے ’ذہانت سے‘ وہاں رکھا تھا۔
قانون سازی کے مسودے پر تربیتی پروگرام کا افتتاح کرتے ہوئے، شاہ نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی قانون سازی اچھی طرح سے تیار کی گئی ہے، تو’کسی عدالت کو کسی قانون کی کوئی وضاحت دینے کی ضرورت نہیں ہے‘۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ اگر مسودہ سادہ اور واضح ہے، تو ایگزیکٹو کی طرف سے غلطیوں کے کم سے کم امکانات کے ساتھ لوگوں کو قانون کے بارے میں آگاہ کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ اگر مسودے میں’گرے ایریاز‘ رہ گئے تو وہ تفسیر میں’تجاوزات‘کا باعث بنیں گے۔ شاہ نے کہا کہ اگر مسودہ مکمل اور واضح ہے تو اس کی تشریح بھی واضح ہو جائے گی۔
آرٹیکل ۳۷۰‘جسے مرکز کی بی جے پی حکومت نے ۲۰۱۹میں منسوخ کر دیا تھا‘کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ پورا ملک چاہتا تھا کہ آئین کا یہ پروویڑن موجود نہ ہو۔
شاہ نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ جب آرٹیکل بنایا گیا تھا، اس کا ذکر انڈیکس میں’آرٹیکل۳۷۰ کی عارضی فراہمی‘ کے طور پر کیا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ آئین ساز اسمبلی کے مباحثوں کے ریکارڈ سے آرٹیکل پر ہونے والی بحثیں بھی غائب تھیں اوروہ پرنٹ نہیں ہوئیں تھی۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جس نے بھی اس کا مسودہ تیار کیا تھا اور وہ لوگ جو آئین ساز اسمبلی کا حصہ تھے، انہوں نے کتنی سمجھداری سے اسے پیش کیا اور کس طرح بہت سوچ بچار کے بعد’عارضی‘ لفظ ڈالا گیا۔
آئین کا آرٹیکل عارضی نہیں ہوسکتا، اس میں ترمیم کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ اسے آج بھی پڑھیں ‘ پرانا آئین، تو یہ واضح طور پر آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی فراہمی کے طور پر لکھا ہوا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا’’آرٹیکل ۳۷۰؍اب موجود نہیں ہے۔ اب اسے منسوخ کر دیا گیا ہے۔ لیکن براہ کرم اسے پڑھیں۔ اس کا ذکر انڈیکس میں ’آرٹیکل ۳۷۰کی عارضی فراہمی‘ کے طور پر کیا گیا تھا۔ یہ ’عارضی‘ لفظ نہ لکھا ہوتا تو کیا ہوتا۔ مجھے بتائیں، کیا آئین کی کوئی شق ’عارضی‘ ہو سکتی ہے‘‘۔
شاہ کے ملک کے وزیر داخلہ کے طور پر چارج سنبھالنے کے چند ماہ بعد اس آرٹیکل کو ۵؍اگست ۲۰۱۹کو ختم کر دیا گیا تھااور سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو جموں و کشمیر اور لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ’قانون سازی میں کابینہ یا پارلیمنٹ کی سیاسی خواہش کی عکاسی ہونی چاہیے‘۔
شاہ نے کہا’’ایک قانون غیر متنازع ہو جاتا ہے اگر وہ سادہ اور واضح ہو۔ اسے (ایک قانون) اس طرح بنایا جائے کہ عدالت کو کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہ ہو۔ جب کسی عدالت کو کسی قانون کی کوئی وضاحت کرنے کی ضرورت نہ ہو تو یہ آپ کے لیے ایک تمغہ ہے۔ ہمارا مقصد ایک قانون کا مسودہ تیار کرنا ہے جتنا ممکن ہو سادہ اور واضح‘‘۔
وفاقی وزیر داخلہ کاکہنا تھا کہ جب کوئی قانون ابہام کے ساتھ بنایا جاتا ہے، تو اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔شاہ نے مزید کہا ’اگر کوئی قانون سادہ اور واضح کیا جائے تو عدلیہ کو مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ گرے ایریاز حد سے تجاوز کرنے کی گنجائش چھوڑ دیتے ہیں‘۔انہوں نے کہا کہ ’مقننہ کی روح‘ کا مسودہ تیار کرنا بہت اہم کام ہے کیونکہ سادہ ترجمہ کافی نہیں ہے اور اس کے لیے مناسب وضاحت ہونی چاہیے۔
شاہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے قانون ساز ونگ اور ریاستی مقننہ میں کام کرنے والوں کی ڈرافٹنگ کی مہارت کو بہتر بنایا جانا چاہئے کیونکہ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔
تربیتی سیشن کے انعقاد پر پارلیمنٹ کے حکام کی تعریف کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے کہا کہ صلاحیت سازی بہت ضروری ہے اور اسے ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا’’ہمیں اس بدلتی ہوئی دنیا میں مناسب قدم اٹھانا ہوگا اور آج کے تقاضوں کے مطابق قوانین بنانے ہوں گے۔ اگر ہمارے پاس اس قسم کی کشادگی نہیں ہے تو ہم غیر متعلقہ ہو جائیں گے‘۔
وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی حکومت نے قوانین میں بہت سی تبدیلیاں کی ہیں۔ان کاکہنا تھا’’ہم نے تقریباً ۲۰۰۰ غیر متعلقہ قوانین کو ختم کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، ہم نے نئے قوانین بنانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔‘