سچ تو یہ ہے کہ سوئیہ بگ بڈگام میں جس انداز میں ایک خاتون کا قتل ہوا … سفاکانہ قتل ہوا … اس نے ہمیں حیران اور نہ پریشان کر کے رکھ دیا ہے… یقینا ایسے لوگو ں کی کوئی کمی نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے‘ جن کا کہنا ہے کہ وہ اس قتل سے حیران اور پریشان ہوئے ہیں… لیکن ہم نہیں اور بالکل بھی نہیں ۔ اپنے دائیں بائیں نظر ڈالئے ‘اپنے آپ پاس کی کچھ خبر رکھ لیجئے تو … تو آپ کیلئے یہ سفاکانہ قتل غیر متوقع نہیں لگے گا ۔اور اس لئے نہیں لگے گا کہ جو ہم دیکھ رہے ہیں ‘ جہاں ہم پہنچ گئے ہیں‘ ہم گمراہی کی اتھاہ گہرائیو ں میں جس تیزی سے گر رہے ہیں…وہاں ایسے واقعات غیر متوقع نہیں …اور بالکل بھی نہیں ۔ وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس قوم کے نوجوان ہی ہیں جو شراب کی دکانوں کے باہر لمبی قطاروں میں اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں… وہ کوئی اور نہیں بلکہ اس قوم کا مستقبل ہی جسے ڈرگس کی لت لگ گئی ہے …وہ کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے نوجوان ہی ہیں جو نشے کے عادی ہو گئے ہیں اور… اور ڈرگس کے حصول کیلئے وہ پیسوں کا بندو بست کرنے کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتے ہیں… کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں… یہ اس قوم کے لڑکے اور کڑکیاں ہی ہیں جو ایسی ایسی برائیوں میں پھنس گئے ہیں کہ ان سے باہر آنا ان کیلئے مشکل نہیں بلکہ نا ممکن لگتا ہے… یہ اس قوم کی بیٹیاں اور بیٹے ہی ہیں جو ایسی بے حیا حرکتوں کے مرتکب ہو رہے ہیں کہ بے چارہ شیطان بھی آب آب ہو جائے … ایسے میں اگر کوئی ادھیڑ عمر کا کوئی ترکھان کسی خاتون ‘ کسی لڑکی کو چیر کے رکھ دے گا تو… تو کم از کم ہم حیران نہیں ‘ پریشان نہیں ہوں گے۔ ہم فتویٰ تو نہیں دیں گے … لیکن … لیکن وادی میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے ‘اس کے ذمہ دار آپ اور ہم ہیں‘یعنی ہم والدین … جو اپنی ذمہ داریاں بچوں کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے تک ہی محدود رکھے ہو ئے ہیں… ان کے بچے دن میں کیا کرتے ہیں ‘ کہاںآجاتے ہیں‘ان کا دوستانہ کن سے ہے اور کن سے نہیں … وہ سب کچھ ہمیں جاننے میں دلچسپی ہے اور نہ ہمارے پاس اتنا وقت ہے… سچ تو صاحب یہ ہے کہ ہمارے پاس سب کیلئے وقت ہے… لیکن اپنے بچوں کیلئے نہیں ہے… کشمیر کے گھروں میں آج سب سے بڑی خلیج والدین اور ان کے بچوں میں ہے… ایسی خلیج جو دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے …اور اس کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔تھوڑا سا وقت نکالئے … اپنے بچوں کیلئے نکال لیجئے … تاکہ کل کو آپ کو حیران اور نہ ہی پریشان ہونا پڑے ۔ ہے نا؟