الیکشن کے انعقاد کے حوالہ سے ہر کوئی دعویٰ کررہاہے کہ بہت جلد ہوں گے لیکن کب ہوں گے یہ کوئی بتانہیں رہا ہے۔ البتہ اٹکلیاں جاری ہیں اور ان اٹکلیوں کے بیچوں بیچ کم و بیش ہر جموں اور کشمیر نشین سیاسی پارٹی خود کو الیکشن کی تیاریوں میںمصروف ہے۔ جبکہ ساتھ ہی نئی سیاسی صف بندیوں کے بارے میں بھی قیاس اور اشارے دونوں سامنے آرہے ہیں۔
اس نئی سیاسی صف بندی کے بارے میںبحث اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری کے اُس بیان کے فوراً بعد شروع ہوئی جس میں انہوںنے اشارہ دیا کہ الیکشن کے بعد اگر ضرورت پڑی تو حکومت سازی کے لئے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے میںکوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے جبکہ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بی جے پی کوئی اچھوت پارٹی نہیں ہے کہ جس سے ہاتھ نہ ملا یاجاسکے۔
بے شک سیاست میںکوئی اچھو ت نہیں ہوتا البتہ پارٹی کے سیاسی نظریات اور تصورات کیا ہیں اور کن نظریات کو گلے کا ہار بناکر پارٹی عوام کا اشتراک حاصل کرنے کی سعی مسلسل میں رہتی ہے یہ اہم ہے۔ جہاں تک جموںوکشمیر کی ماضی قریب کے سیاسی منظرنامے ، الیکشن اور مابعد حکومتوں کی تشکیل کے حوالوں سے معاملات کا تعلق ہے تو یہاں مختلف نظریات اور عقیدوں کی حامل سیاسی پارٹیوں کے درمیان گٹھ جوڑ ہوتا رہا ہے اور اس گٹھ جوڑ کی بنا پر حکومتوں کی تشکیل عمل میں آتی رہی ہیں۔
نیشنل کانفرنس اور کانگریس آپس میں مخلوط حکومت میں رہے، پی ڈی پی اور کانگریس اور پی ڈی پی اور بی جے پی آپس میں مخلوط حکومت میںرہے ہیں، بلدیاتی سطح پر نیشنل کانفرنس بی جے پی کے ساتھ نہ صرف جموں میونسپل کونسل کے حوالہ سے بلکہ کرگل ہل کونسل کے تعلق سے آپس میں گٹھ جوڑ میں رہی ہیں۔ جبکہ نیشنل کانفرنس ملکی سطح پر کانگریس اور بی جے پی (واجپئی دور) کے ساتھ شریک اقتدار رہی ہے۔
اس مخصوص تاریخ کے تناظرمیںجموں وکشمیر میںجب بھی اسمبلی کے لئے الیکشن ہوں گے اور الیکشن میںکس پارٹی کی کیا پوزیشن حاصل ہوگی اور کس کو کس حد تک عوام کا منڈیٹ حاصل ہوگا اس کے ہوتے اگر کچھ پارٹیوں کے درمیان مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے گٹھ جوڑ ہوگا تو وہ حیرانی کا موجب نہ ہے اور نہ ہونا چاہئے۔
کیا پی ڈی پی کے سرپرست مرحوم مفتی محمدسعید نے الیکشن مہم کے دوران عوام سے بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے اور جموںوکشمیرمیں پیش قدمی روکنے کیلئے عوام سے ووٹ اور منڈیٹ نہیںمانگا! کیا مرحوم مفتی نے ایک نئی تبدیلی کی خاطر خود کو اُس تبدیلی کے خالق اور محرک کے طور پیش نہیں کیا، لیکن جب الیکشن نتائج سامنے آگئے تو تشکیل حکومت کی سمت میں مرحوم نے اُسی بی جے پی کا ہاتھ تھام لیا جس بی جے پی کے خلاف الیکشن مہم کی قیادت کی ۔پھر اس کے انتقال کے بعد محبوبہ مفتی نے بھی بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ یہ دوسری بات ہے کہ جس گٹھ جوڑ کو پہلے مفتی مرحوم اور پھر اس کی بیٹی نے بڑھ چڑھ کر ’’ مفتی مرحوم کا مشن اور وژن‘‘ قرار دیا اور بار بار اس مشن اور وژن کا تکرار کرتی رہی وہ مشن اور وژن نتائج اور اثرات کے حوالہ سے ناکام ثابت ہوا۔ البتہ اس ناکامی کا اعتراف نہ کرنا ہزیمت سے خود کو بچانے کی سعی لاحاصل ہی قرار دیاجاسکتا ہے۔
نیشنل کانفرنس خود کو ایک نظریاتی جماعت قراردیتی ہے اور یہ دعویٰ بھی کررہی ہے کہ یہ سیاسی درجہ کم البتہ یہ ایک تحریک ہے جو تواتر کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس جماعت اور اس کی قیادت نے اقتدار کی مصلحتوں کے تحت کانگریس سمیت مختلف نظریات کی حامل پارٹیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور حکومت کا حصہ رہی ۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے نظریات تک کو حاشیہ پر رکھنے میں ہچکچاہٹ سے کام نہیں لیا۔ بھاری اکثریت سے منظور اندرونی خودمختاری سے متعلق تفصیلی رپورٹ آنجہانی اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں مرکز ی حکومت کو پیش کی تو حکومت نے اس رپورٹ کو ردی کی ٹوکری کی نذرکردیا،اس ہزیمت کے باوجود پارٹی مرکز میں بی جے پی کے ساتھ اقتدار سے دستبردار نہیں ہوئی۔
کانگریس کے قائم کردہ پانچ ورکنگ گروپوں میں سے ایک گروپ جس کی قیادت جسٹس صغیراحمد کررہے تھے کی طرف سے پیش کردہ اٹانومی سے متعلق رپورٹ کو مزید غور وخوض کرکے عملی جامہ پہنانے کی سمت میں اقدامات اُٹھانے سے عمر عبداللہ کی قیادت میں مخلوط حکومت کی ذیلی کا بینہ کمیٹی جس میں تاج محی الدین سمیت کئی کانگریسی وزراء بحیثیت رکن شامل تھے کی طرف سے مسلسل چھ سال تک مخالفت کرنے اور کانگریس کی طرف سے بار بار یہ دعویٰ کرنے کہ خودمختاری کا معاملہ حتمی طور سے ۷۵ء میں شیخ اندرا گاندھی اکارڈ کے تحت طے ہوچکا ہے عمر کی قیادت میں پارٹی اور حکومت باالخصوص اُس کابینہ سب کمیٹی کا چیئرمین وزیر خزانہ عبدالرحیم راتھر ہزیمتوں کا مسلسل سامنا کرنے کے باوجود بے عمل ہی رہے۔
لہٰذا ان چند مخصوص حوالہ جات سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ حصول اقتدار ہو یا تحفظ اقتدار کی خاطر نظریات چاہئے کچھ بھی ہوں کیجولٹی بن جاتے ہیں یا بنائے جاتے ہیں۔ البتہ نظریات کی دہائیاں دے کر عوام سے منڈیٹ ضرور طلب کرلیاجاتا ہے اور جموں وکشمیرمیں الیکشن عمل کے حوالہ سے یہ ایک مسلمہ روایت ہے۔
اس تناظرمیں اب اگر اپنی پارٹی کے سرپرست سید الطاف بخاری نے الیکشن میں اپنی پارٹی کی شرکت اور پھر حصول اقتدار یا مخلوط زمرے میں اقتدار میںشرکت کے حوالہ سے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانے کا اعلان کیا تو اس میں بادی النظرمیں کوئی قباحت نہیں اور نہ ہی یہ کوئی سنگین سیاسی نوعیت کا بحث طلب اشوع ہے یا ہونا چاہئے۔البتہ اپنی پارٹی کے قیام کے فوراً بعد جن کچھ پارٹیوں نے اس کو بی جے پی کی ’بی‘ ٹیم قراردیا تھا وہ اپنے اس دعویٰ کے ساتھ پھرمیدان میں اُترتے نظرآئیں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ ہم نے جو کہا تھا وہ آج سچ ثابت ہوا اور جس سچ کی تصدیق خود پارٹی سربراہ سید الطاف بخاری کررہے ہیں۔