نئی دہلی//
لیہہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس، لداخ سے تعلق رکھنے والی ٹریڈ یونینوں، سماجی، سیاسی اور مذہبی گروہوں کا ایک مجموعہ، بدھ کو دہلی کے جنتر منتر پر مرکز کے زیر انتظام علاقے کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے کے لیے احتجاج کرنے والے ہیں۔
لداخ جموں اور کشمیر کے ساتھ ہی ایک مرکز کے زیر انتظام علاقہ بن گیا، جب آرٹیکل ۳۷۰؍ اور۳۵؍ اے کو۵؍ اگست۲۰۱۹ کو منسوخ کر دیا گیا۔ جب کہ جموں و کشمیرقانون سازیہ کے ساتھ ایک یو ٹی ہے، لداخ کے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔
کارکن اور سیاست دان سجاد حسین نے کہا کہ دونوں گروپ، جو لداخ کے مطالبات کی ایک فہرست کے ساتھ اکٹھے ہوئے ہیں، بدھ کو قومی دارالحکومت میں ایک دن بھر احتجاج کریں گے۔
حسین نے کہا ’’جب لداخ کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنایا گیا تو ہم سے ترقی کا وعدہ کیا گیا۔ تاہم، چار سال ہو گئے ہیں اور ہم کوئی ترقی ہوتے نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا’’لیہہ اپیکس باڈی اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس مشترکہ احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم ایک چار نکاتی ایجنڈا اٹھا رہے ہیں، جس کے تحت ہمارے مطالبات لداخ کو ریاست کا درجہ، آئین کے تحت چھٹا شیڈول، نوکریوں میں ریزرویشن، لداخ کے لیے علیحدہ پبلک سروس کمیشن، اور لیہہ اور کرگل کے لیے دو پارلیمانی نشستیں شامل ہیں‘‘۔
لداخ سے تعلق رکھنے والے کارکن اور ماہر تعلیم سونم وانگچک، جو حال ہی میں لداخ کو بچانے کیلئے پانچ روزہ ’احتجاج ‘ پر تھے‘ نے کہا کہ احتجاج دہلی میں اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی آواز حکومت تک پہنچ سکے۔
وانگچک’’ہم نے لداخ سے اپنی آواز اٹھائی، لیکن ابھی تک کوئی ہم تک نہیں پہنچا۔ شاید ہماری آواز ان تک نہیں پہنچی، اس لیے ہم احتجاج کرنے کے لیے دہلی آئے ہیں۔‘‘ ان کامزید کہنا تھا’’ہم حکومت سے بات کر رہے ہیں، لیکن پچھلے تین سالوں میں یہ عمل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے۔ میں نے علامتی طور پر روزہ رکھ کر احتجاج کیا، ہمیں امید تھی کہ حکومت ہمیں کم از کم بات چیت کے لیے بلائے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کوئی دعوت نامہ نہیں دیا گیا ہے۔‘‘
وانگچک نے مزید کہا ’’بطور شہری ہماری آواز بلند کرنا ہمارا فرض ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہماری بات سنے‘‘۔
ایل اے بی اور کے ڈی اے‘دونوں لداخ کے دو خطوں …لیہہ اور کرگل کے مختلف سماجی اور مذہبی گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں، اگست ۲۰۲۱ میں اپنے مطالبات کو آگے بڑھانے کے لیے ہاتھ ملایا۔
اس سال جنوری میں، وزارت داخلہ نے لداخ کے لوگوں کے لیے’زمین اور روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانے‘ کے لیے وزیر مملکت نتیانند رائے کی سربراہی میں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی تھی۔تاہم، دونوں اداروں نے کمیٹی کو مسترد کر دیا، اور اس کے زیراہتمام ہونے والے کسی بھی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا یہ کہتے ہوئے فیصلہ لیا کہ کمیٹی کے مینڈیٹ میں ان کے اٹھائے گئے مسائل کا ذکر نہیں ہے۔
حسین نے کہا’’دونوں اداروں نے اس وقت تک اجلاسوں میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا جب تک ایجنڈا طے نہیں ہو جاتا اور کمیٹی کی تشکیل دوبارہ نہیں ہو جاتی‘‘۔ انہوں نے مزید کہا ’’لوگ اپنی ثقافتی شناخت، سیاسی نمائندگی کے ساتھ ساتھ ملازمت کے تحفظ کے بارے میں فکر مند ہیں۔‘‘