نئی دہلی//
حکومت نے جمعرات کو راجیہ سبھا کو بتایاکہ ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں ’ابھی تک‘ کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے ۔
ایک تحریری جواب میں، وزیر قانون کرن رجیجو نے کہا کہ حکومت نے ۲۱ ویں لاء کمیشن سے یکساں سول کوڈ سے متعلق مختلف امور کا جائزہ لینے اور سفارشات پیش کرنے کی درخواست کی ہے۔
وزیر قانون کاکہنا تھا ’’۲۱ویں لاء کمیشن کی مدت ۳۱؍ اگست۲۰۱۸ کو ختم ہوگئی۔ لاء کمیشن سے موصول ہونے والی معلومات کے مطابق، یکساں سول کوڈ سے متعلق معاملہ ۲۲ ویں لاء کمیشن کے ذریعہ غور کیلئے اٹھایا جاسکتا ہے‘‘۔
رجیجو کاکہنا تھا’’لہذا، یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے بارے میں ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے‘‘۔
موجودہ لاء پینل کی مدت اس ماہ کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔ حکومتی ذرائع نے عندیہ دیا ہے کہ پینل کی مدت میں تین سال کی توسیع کی جا سکتی ہے۔
موجودہ لاء پینل ۲۱ فروری ۲۰۲۰ کو تشکیل دیا گیا تھا لیکن اس کے چیئرپرسن اور ممبران کی تقرری پینل کی مدت ختم ہونے سے چند ماہ قبل گزشتہ سال نومبر میں کی گئی تھی۔
۲۱ ویں لاء کمیشن نے یکساں سول کوڈ سے متعلق مختلف مسائل کا جائزہ لیا اور وسیع تر بات چیت کیلئے اپنی ویب سائٹ پر ’عائلی قانون کی اصلاح‘ کے عنوان سے ایک مشاورتی مقالہ اپ لوڈ کیا۔
یکساں سول کوڈ کا نفاذ ایک انتخابی وعدہ تھا جو برسراقتدار بی جے پی نے ۲۰۱۴؍اور ۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات میں کیا تھا۔
یاد رہے گزشتہ سال نومبر میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھاکہ بی جے پی نے ملک میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) لانے کا عہد کیا ہے لیکن تمام جمہوری عمل اور اس پر بات چیت کے بعد ہی۔
ٹائمز ناؤ سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے، شاہ نے کہا کہ یو سی سی بھارتیہ جن سنگھ کے دنوں سے بی جے پی کا وعدہ رہا ہے۔ ’’نہ صرف بی جے پی، دستور ساز اسمبلی نے بھی پارلیمنٹ کو مشورہ دیا تھا اور کہا تھا کہ یو سی سی کو ملک میں مناسب وقت پر آنا چاہیے۔ کسی بھی سیکولر ملک کے لیے قانون مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے۔ اگر کوئی قوم اور ریاستیں سیکولر ہیں تو مذہب کی بنیاد پر قوانین کیسے ہوسکتے ہیں؟ ہر ایک کے لیے پارلیمنٹ یا ریاستی اسمبلیوں سے ایک قانون پاس ہونا چاہیے۔‘‘
شاہ کا کہنا تھا ’’ آئین ساز اسمبلی کی وابستگی کو مدتوں فراموش کر دیا گیا۔ بی جے پی کے علاوہ کوئی دوسری پارٹی یو سی سی کے حق میں نہیں ہے۔ انہوں نے اس پر بات تک نہیں کی۔ اگر ان میں ہمت نہیں ہے تو وہ اس کی مخالفت نہیں کریں گے۔ لیکن وہ یہ نہیں کہیں گے، ٹھیک ہے آپ اسے نافذ کریں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم جمہوریت کا حصہ ہیں۔ جمہوریت میں صحت مند بحث ضروری ہے۔ اس معاملے پر کھلی اور صحت مند بحث کی ضرورت ہے۔‘‘ (ایجنسیاں)