نئی دہلی//
مرکزی وزیر داخلہ‘ امت شاہ نے بدھ کو جموں کشمیر‘ جہاں آج صبح پاکستان سے آئے ہوئے چار بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گرد مارے گئے‘ میں سیکورٹی کی صورتحال اور ترقی کے مسائل کا جائزہ لیا۔
سرکاری عہدیداروں کاکہنا ہے کہ پہلے سے طے شدہ میٹنگ میں، وزیر داخلہ نے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں سیکورٹی کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کے حمایت یافتہ دہشت گردوں سے نمٹنے اور امن برقرار رکھنے کیلئے کیے گئے اقدامات کا جائزہ لیا۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ یو ٹی میں جاری ترقیاتی پروگراموں پر بھی میٹنگ میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
میٹنگ میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا، وزارت کے سینئر افسران‘ نیم فوجی دستوں‘ جموں و کشمیر انتظامیہ اور پولیس نے شرکت کی۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ دہشت گردی کے ماحولیاتی نظام پر مشتمل عنصر، جو عام آدمی کی بھلائی کو نقصان پہنچانے کیلئے دہشت گرد علیحدگی پسند مہم کو مدد، حوصلہ افزائی اور اسے برقرار رکھتا ہے، اسے ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
حکام نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں جموں کشمیر میں تشدد کے اکا دُکا واقعات ہوئے ہیں جن میں معصوم شہریوں اور سیکورٹی اہلکاروں پر حملے اور سرحد پار سے دراندازی کی کوششیں شامل ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ چار بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گرد‘ جو بدھ کی صبح جموں میں ایک ’چانس انکاؤنٹر‘ میں مارے گئے، پاکستان سے آئے تھے۔
اس ماہ کے اوائل میں، ایسی اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ وادی میں کام کرنے والی کشمیری پنڈت برادری کے ارکان اس وقت خوف و ہراس کی حالت میں ہیں کیونکہ ایک دہشت گرد گروپ نے ان میں سے۵۶ ملازمین کی ’ہٹ لسٹ‘جاری کی۔
لشکر طیبہ کی شاخ‘دی ریزسٹنس فرنٹ (ٹی آر ایف) سے منسلک ایک بلاگ نے۵۶کشمیری پنڈت ملازمین کی فہرست شائع کی ہے جنہیں وزیر اعظم کے بحالی پیکیج (پی ایم آر پی) کے تحت بھرتی کیا گیا تھا‘ اور ان پر بڑھتے ہوئے حملوں کا انتباہ دیا گیا تھا۔
دہشت گردوں کے ذریعہ ٹارگٹ کلنگ کے بعد، وادی میں پی ایم آر پی کے تحت کام کرنے والے کئی کشمیری پنڈت جموں منتقل ہو گئے ہیں اور وہ۲۰۰ دنوں سے زیادہ عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں اور ان کے بقیہ کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
حکومت نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا تھا کہ جموں و کشمیر میں۲۰۱۹ میں آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد سے جولائی۲۰۲۲ تک ۵کشمیری پنڈتوں اور۱۶ دیگر ہندوؤں اور سکھوں سمیت۱۱۸ شہری مارے گئے۔
کشمیری پنڈتوں کی ہلاکتوں نے کمیونٹی کے ارکان کی طرف سے احتجاج کو جنم دیا اور انہوں نے سیکورٹی بڑھانے اور سرکاری ملازمین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مئی میں جموں کے کٹرہ کے قریب ان کی بس میں آگ لگنے سے چار ہندو یاتری ہلاک اور کم از کم ۲۰زخمی ہو گئے تھے۔ پولیس کو شبہ ہے کہ آگ بھڑکانے کیلئے چپکنے والے بم کا استعمال کیا گیا ہے۔
آرٹیکل۳۷۰‘ جس نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا تھا‘۵؍اگست ۲۰۱۹ کو منسوخ کر دیا گیا تھا اور ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
ایک الگ میٹنگ میں، وزیر داخلہ نے لداخ میں کئے جانے والے ترقیاتی اقدامات کا بھی جائزہ لیا۔ (ایجنسیاں)