موسم سرما کی قہر بانیوں کے شانہ بشانہ کشمیرمیں آتشزدگی کی بھیانک اور ہولناک وارداتیں پریشانی اور متاثرین کیلئے نت نئی الجھنوں اور مصائب کا موجب بن کر نازل ہو رہی ہیں۔ آگ کی ان وارداتوں میں کوئی بھی گھر خاندان لپیٹ میں آجائے تو نہ صرف عمر بھر کے اثاثے خاک میں مل جاتے ہیں بلکہ گھر بھی اجڑ کررہ جاتاہے۔ سردی ہویا گرمی ہر صورت میں مکین جو براہ راست متاثر ہیں عرش سے فرش پر آجاتے ہیں۔ آتشزدگی سے متاثرہ گھرانوں اور خاندانوں کی باز آبادکاری کے حوالہ سے حکومت کے پاس کوئی امدادی پالیسی نہیں ہے۔ البتہ متاثرین کو فوری طور سے کچھ راحتی سامان فراہم کیا جاتا ہے جبکہ کچھ رضاکار ادارے آگے آکر زندگی کا نیا کٹھن سفر شروع کرنے کیلئے کچھ سامان میسر رکھ رہے ہیں۔
آگ کی وارداتوں کے حوالوں سے عموماً شاٹ سرکٹ وجہ بتائی جارہی ہے لیکن یہ سارا سچ نہیں ہے، آگ لگ جانے کی کئی دیگر وجوہات بھی ہیں جن میں مکینوں کی غفلت، تساہل پسندی، الیکٹرانک سازوسامان کا بے دریغ استعمال، پرانی اور بوسیدہ تاروں کو اُکھاڑ کر نئی تاریں لگانے کی سمت میں بے اعتنائی سے عبارت انداز فکر اور اپروچ، سردیوں کے ایام میں خاص طور سے بالن، کوئلہ اور کانگڑیوں کا بڑھتا استعمال خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
انہی میں سے چند ایک عوامل کی جانب محکمہ فائر سروسز کے اعلیٰ عہدیداروں کی جانب سے بھی اشارہ دیاجاتا رہا ہے اور لوگوں سے بار بار تلقین وتاکید کی جارہی ہے کہ وہ احتیاط سے کام لیں،اپنی گرمی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے الیکٹرانک آلات کا بے دریغ اور بے تحاشہ استعمال کرنے سے گریز کریں، لیکن یہ کہنا بے جانہیں کہ لوگ عموماً احتیاط سے کا م نہیں لے رہے ہیں، جو بسا اوقات ہولناک وارداتوں پر منتج ہوکر رہ جاتا ہے۔
آگ بدقسمتی سے کسی گنجان علاقے یا بستی سے نمودار ہوجائے توآن واحد میں آس پاس کی املاک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے کر سب کچھ بھسم کررکھدیتا ہے۔ اس طرح بیک وقت کئی گھرانے، جن میں بچے جوان ،بوڑھے ،خواتین بھی شامل ہوتے ہیں آن واحد میں اپنے سروں پر سے چھت اور سایہ سے محروم ہوکر سڑک پر آجاتے ہیں اور پھربے آسرا زندگی گذارنے کا دشوار گذار سفر شروع ہوجاتاہے۔
دستاویزات پر بھی اور سرکاری ونیم سرکاری اداروں کی موجودگی کے حوالہ سے کہنے کو تو ریڈکراس نامی ادارہ بھی موجود ہے لیکن آفات سماوی کے حوالہ سے اس ادارے کی کارکردگی اتنی موثرا ورفعال نہیں جتنی درکار ہے، بہت کم معاملات میں یہ خبر سننے اور پڑھنے کوملتی ہے کہ ریڈ کراس نے آفات سے متاثرین کی مدد کی، متاثرین کو چند برتن اور چند کمبل فراہم کئے جو کہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ تصویر کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیرمیں صاحب ثروت گھرانوں کی کوئی قلت نہیں لیکن بہت کم معاملات ایسے سامنے آتے ہیں جن میں اس حوالہ سے یہ اطلاع گردش کرتی ہے کہ کسی صاحب ثروت نے متاثرین کی ڈھارس بندھائی یا ان کی مدد کی۔
اگر کشمیرکے طول وارض سے صرف زکوٰۃ کاپیسہ اکٹھا کرکے ایک نیا بیت المال کو وجود بخشا جاتا ہے تو ناگہانی آفات کے شکار اور متاثرین کسی بھی حوالہ سے یاسیت کا شکار نہیں ہوں گے ۔لیکن یہ ایسا کوئی منظم ادارہ مرکزی بیت المال کی شکل وصورت میں موجود نہیں ، اگر چہ محلہ سطح پر مساجد سے منسلک ایسے ادارے ضرور موجود ہیںاور فرائض بھی انجام دے رہے ہیں لیکن سال میں ایک دو بار مخیر حضرات کچھ رقم اداکرکے باقی سال بھر لمبی نیند میں چلے جاتے ہیں۔ نقد آمدن پر اڑھائی فیصد اور پیداوار پر ۲۰ فیصد عُشر کی ادائیگی کو ہی اگر واحد پیمانہ اور معیار مقرر کیاجائے تو یہ رقم اربوں میں جمع ہوسکتی ہے لیکن بدقسمتی کہیے یا قومی المیہ اسلام کی پیروکاری کے دعوئوں کے باوجود اسلام کے اس راحتی نظام کی طرف کوئی سنجیدہ توجہ نہیں دی جارہی ہے۔ اس اشو کی طرف سنجیدگی اور بھر پور متانت سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
چونکہ کشمیرمیں عمارتوں کی تعمیرات کے سلسلے میں لکڑی کا بہت زیادہ استعمال ہورہاہے جس کا کشمیر کے موسمی حالات کے پیش نظر کوئی دوسرا قابل بھروسہ متبادل دستیاب نہیں لہٰذا آتشزدگی کی صورت میں حدسے زیادہ نقصانات کا سامنا رہتا ہے۔ حکومت کیلئے لازم ہے کہ وہ صورتحال کا موثر طور سے نمنٹے کیلئے چند ضروری اقدامات اُٹھائے۔
ان اقدامات میں آگ بجھانے پر معمور عملہ کیلئے سہولیات کی فراہمی، آگ پر قابو پانے کیلئے جدید ترین سامان، آلات اور ٹیکنالوجی کی فراہمی ، وارڈ سطح پر فائر سروس اسٹیشنوں کا قیام اور زیر زمین نصب پانی کی پائپوں کی تجدید کاری خاص طورسے قابل ذکر ہے۔ ماناکہ کشمیر نے زندگی کے کم وبیش ہر شعبے میں گذری دہائیوں کے دوران ترقی کے بہت سارے زینے طے کئے ہیں لیکن اس ترقی نے زیر زمین پانی کے پائپوں میں نصب ان خصوصی پوائنٹوں کو زمین بوس کرکے نام ونشان تک مٹادیا ہے جنہیں کسی محلہ پابستی میں آگ کی واردات کے رونما ہونے پر فائر سروس کی پائپ لائن سے ہنگامی حالات میں جوڑ کر عملہ ابتدائی کارروائی کرکے آگ کو پھیلنے سے روکنے کی سمت میں اہم کرداراداکرتے تھے۔ معلوم نہیں کہ ان مخصوص فائر پوائنٹوں کو کیوں زمین بوس کردیاگیا اور اس میں کونسی حکمت عملیاں کارفرما تھی۔
ایک پالیسی پیپر کی بھی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ جس میں اور باتوں کے علاوہ انشورنس کمپنیوں کی خدمات بھی حاصل کرنے کا تذکرہ شامل ہو۔ جائیداد، املاک اور اثاثوں کا انشورنس خود انشورنس کمپنیوں نے ناقابل دسترس بنادیا ہے۔ پریمیم کی زیادہ سے زیادہ حد یں مقرر کرکے لوگوںکیلئے انشورنس حاصل کرنے کے راستے مسدود کئے جارہے ہیں۔ اور پھر جو لوگ انشورنس کی خدمات حاصل کرتے ہیں حادثات سے متاثر ہونے کے بعد بجائے اس کے کہ ان کی ہرممکن سطح پر مدد کاراستہ اختیار کیا جاتا انہیں مختلف طریقوں سے ہراسان اورتنگ کیاجاتا ہے ۔ انشورنس کمپنیوں کے اس طرزعمل ہراسانی اور ریڈ ٹیپ ازم سے دل برداشتہ ہوکر لوگ اپنے اثاثوں اور جائیدادوں کا انشورنس کرنے سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔ حکومت اس تعلق سے کوئی لائحہ عمل وضع کرسکتی ہے۔
اس کے علاوہ ریڈ کراس ایسے اداروں کو سرنومتحرک اور فعال بنانے کے ساتھ ساتھ وقف بورڈ کو بھی حرکت میں لایاجاسکتاہے ۔ وقف بورڈ کو عوام کی عطیات کے ساتھ ساتھ اپنے ذرائع سے معقول آمدن اور وسائل حاصل ہیں، ناگہانی آفات سے متاثرین کی راحت رسانی اور امداد اور بازآباد کاری وقف بورڈ کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کیونکہ اس بورڈ کا وجود ہی دینی بُنیادوں پر ہے کسی نظریاتی یا عقیدتی سیاست پر نہیں۔