سرینگر//
کشمیر کی دستکاریوں میں اس قدر وسعت اور گنجائش ہے کہ یہاں کا کوئی بھی نوجوان خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ بے روزگار نہیں رہ سکتا۔
یہ ماننا ہے سرینگر کے نرورہ عید گاہ سے تعلق رکھنے والے دو تعلیم یافتہ جگری دوستوں کا جنہوں نے اپنی ڈگریاں مکمل کرنے کے بعد سرکاری نوکریوں کی تلاش میں بے کار بیٹھنے کے بجائے روایتی سوزنی ٹوپیاں بنا کر اپنی روزی روٹی کمانے کو ترجیح دی۔
محسن فیاض اور اویس بٹ نامی یہ دو دوست نہ صرف روایتی سوزنی ٹوپیاں تیار کر رہے ہیں بلکہ زمانے کے تقاضوں کے عین مطابق مرد و خواتین کے لئے مختلف ڈیزائنوں کی بھی ٹوپیاں تیار کرتے ہیں جن کی نہ صرف وادی میں بلکہ بیرون وادی و ملک بھی مانگ ہے ۔
محسن فیاض نے اپنے اس سفر کے بارے میں یو این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’ میرے والد روایتی سوزنی ٹوپیاں بنانے کے پیشے سے وابستہ ہیں لہذا اس کام کے ساتھ گھر میں جان پہچان ہوئی‘‘۔
فیاض نے کہا’’ہم (فیاض اور اویس) نے پہلے اپنے لئے مخصوص سوزنی ٹوپیاں بنائی جن کو دوستوں اور دوسرے احباب نے پسند کیا ایسی ہی ٹوپیوں کی فرمائش بھی کی‘‘۔ان کا کہنا تھا’’یہ سال۲۰۱۸کی بات ہے جب ان ٹوپیوں کو پسند کیا گیا توہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم اسی کو اپنے پیشے کے بطور اختیار کرکے روزی روٹی کمائیں‘‘۔
محسن ‘جنہوں نے سال۲۰۲۱ میں ایم بی اے کی ڈگری مکمل کی‘ نے کہا کہ۲۰۲۰سے ہم نے اس کو باقاعدہ طور پر ایک کاروبار کے بطور اختیار کیا۔انہوں نے کہا’’ہم نے پہلے ایک ویڈیو تیار کرکے یو ٹیوب پر ڈال دی جس کو کافی پذیرائی حاصل ہوئی اور ہماری مختلف ڈیزائنوں کی سوزنی ٹوپیوں کو کافی پسند کیا گیا‘‘۔
ان کا کہنا ہے’’ہم اب روایتی سوزنی ٹوپیاں ہی تیار نہیں کر رہے ہیں بلکہ وقت کے تقاضوں کے عین مطابق مرد اور خواتین کے لئے بھی مختلف ڈیزائیوں کی ٹوپیاں بنا رہے ہیں جن کی کافی مانگ ہے نہ صرف وادی میں بلکہ ہمیں بیرونی ممالک سے بھی آرڈرس ملتے ہیں‘‘۔
محسن نے کہا کہ ہم اب صرف ٹوپیاں ہی نہیں بلکہ شال، مفلر وغیرہ بھی تیار کرتے ہیں اور ان کو اپنے خریداروں تک پہنچا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارا کاروبار آن لائن ہے ہم آن لائن آرڈرس بھی حاصل کرتے ہیں اور آن لائن ہی پیسے بھی وصول کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم انٹرنیٹ کی وساطت سے اپنے کاروبار کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا سکتے ہیں۔
محسن کا کہنا ہے کہ ایک کاریگر چار دن سے ایک ہفتے میں ایک ٹوپی تیار کر سکتا ہے اور کام کے لحاظ سے ان کی قیمت طے کی جاتی ہے بعض ٹوپیاں بازار میں۳۵سو روپیوں میں بیچی جاتی ہیں۔
نوجوان کاریگرنے کہا کہ کشمیر کی دستکاریوں میں اس قدر وسعت ہے کہ کوئی بھی نوجوان خواہ پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ بے کار نہیں رہ سکتا ہے ۔انہوں نے کہا’’تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ان دستکاریوں کو جدید خطوظ پر استوار کرنا ہے جس کیلئے ہم انٹرنیٹ سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں‘‘۔
محسن کا کہنا تھا’’موجودہ دور میں ہم اپنی دستکاریوں سے جڑے رہ کر دوسروں کو روز گار دے سکتے ہیں یہ ایک وسیع کارو بار ہے ‘‘۔
محسن نے کہا کہ ہماری خواتین بھی گھر میں بیٹھ کر دیگر گھریلو ذمہ داریاں انجام دینے کے ساتھ ساتھ یہ کام کرکے پیسہ کما سکتی ہیں۔انہوں نے پڑے لکھے نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ سرکاری نوکریوں کی تلاش میں بے کار بیٹھنے کے بجائے ان دستکاریوں سے جڑ جائیں۔
ان کا کہنا تھا’’اس طرح ہم نہ صرف اچھا روزگار حاصل کرسکتے ہیں بلکہ اپنے بزرگوں کے تحفے کو زندہ بھی رکھ سکتے ہیں جو ہمارا اخلاقی فریضہ ہے ۔‘‘