نئی دہلی//
اقتصادی لحاظ سے دنیا کے۲۰ طاقتور ممالک کے گروپ جی۲۰کی صدارت سنبھالنے کے موقع پر، وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ساتھی ممالک سے اپیل کی کہ وہ آنے والے ایک سال میں ایک جامع اور عملی ایجنڈے پر چلتے ہوئے ، کسی ٹکراؤ اور مسابقت سے پاک تحفظ، ہم آہنگی اور امید کی روشنی سے لیس انسانیت پر مرکوز ترقی کی مثال قائم کرنے کی کوششوں میں تعاون کریں۔
مودی نے یہ بات آج جی۲۰میں ہندوستان کی صدارت کے رسمی آغاز کے موقع پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں عالمی نظام کے حوالے سے ہندوستان کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے جی۲۰کی ۱۷ سالہ کامیابیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ تنظیم کی گزشتہ۱۷صدارتوں کے دوران وسیع اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے‘ بین الاقوامی چنگیوں کو معقول بنانے اور مختلف ممالک کے سر سے قرض کے بوجھ کو کم کرنے سمیت کئی اہم نتائج سامنے آئے ۔ ہم ان کامیابیوں سے مستفید ہوں گے اور یہاں سے مزید آگے بڑھیں گے ۔
وزیر اعظم نے کہا’’اب جب کہ ہندوستان نے یہ اہم مقام حاصل کر لیا ہے ، میں اپنے آپ سے یہ پوچھتا ہوں… کیا جی۲۰اب بھی آگے بڑھ سکتا ہے ؟ کیا ہم پوری انسانیت کی فلاح کے تئیں ذہنیت میں بنیادی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ مجھے یقین ہے کہ ہم یہ کر سکتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہمارے حالات سے ہی ہماری ذہنیت تشکیل پاتی ہے ۔ اس پوری تاریخ میں انسانیت ناپید رہی ہے ۔ ہم محدود وسائل کے لیے لڑائی لڑتے رہے کیونکہ ہماری بقا کا انحصار دوسروں کو ان وسائل سے محروم کرنے پر تھا۔ مختلف خیالات، نظریات اور شناختوں کے درمیان تصادم اور مسابقت ہی نمونہ بن گئی۔
مودی نے کہا’’کچھ لوگ یہ بحث کر سکتے ہیں کہ ٹکراؤ اور لالچ انسانی فطرت ہے ۔ لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں۔ اگر انسان فطری طور پر خودغرض ہیں‘ تو ہم سب میں بنیادی یکجہتی کی حمایت کرنے والی اتنی ساری روحانی روایات کی کشش کی وضاحت کیسے کی جائے ؟
اپنی آنے والی نسلوں میں امید پیدا کرنے کیلئے‘ مودی نے کہا’’ ہم بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے لاحق خطرات کو کم کرنے اور عالمی سلامتی کو بڑھانے پر سب سے طاقتور ممالک کے درمیان ایماندارانہ بات چیت کی حوصلہ افزائی کریں گے ‘‘۔
وزیر اعظم نے کہا’’ہندوستان کا جی۲۰؍ایجنڈا جامع، اہم، عمل رخی اور فیصلہ کن ہوگا۔ آئیے ہم ہندوستان کی جی۲۰کی صدارت کو تحفظ، ہم آہنگی اور امید کی صدارت بنانے کے لیے متحد ہوں۔ آئیے ہم مل کر کام کریں تاکہ انسانیت پر مرکوز عالمگیریت کی ایک نئی مثال قائم کی جا سکے ‘‘۔