چلئے صاحب کانگریس پارٹی کو یہ کریڈٹ دے ہی دیتے ہیں… حالانکہ اسے کوئی بھی کریڈٹ دینے کا من نہیں کررہا اور… اور بالکل بھی نہیں کررہا ہے… لیکن کیا کیجئے گا کہ … کہ تنظیمی انتخابات کا سلسلہ کسی اور نے نہیں بلکہ اسی جماعت نے بحال کردیا ہے اور… اور اس کے بعد اگر کہیں اور نہیں ‘ ملک کے کسی اور حصے میں نہیں ‘ کسی سیاسی جماعت میں نہیں ‘ لیکن…لیکن کشمیر کی سیاسی جماعتوں میں کے منہ میں بھی پانی آگیا ہے… پانی کیا آگیا ہے پورا سیلاب آگیا ہے… سیلاب۔ اور کشمیر کی سیاسی جماعتیں بھی ایک ایک کرکے تنظیمی انتخابات کا انعقاد کررہی ہیں… شاید اس لئے کررہی ہیں کہ اسمبلی انتخابات نہیں تو… تو تنظیمی انتخابات ہی سہی ۔پہلے سجاد صاحب کی پیپلز کانفرنس نے تنظیمی انتخابات کرائے اور… اور اب نیشنل کانفرنس اس کی تیاری کررہی ہے… ان اطلاعات… اطلاعات کیا کنفیوژن کے بیچ کہ اس کے صدر‘ڈاکٹر فاروق عبداللہ مستعفی ہو گئے ہیں… یا شاید نہیں ہو گئے ہیں ۔خیر ! بات چاہے کچھ بھی ہو ‘ کشمیر کی سیاسی جماعتوں میں تنظیمی انتخابات کا ہونا ایک اچھی بات ہوتی… جی ہاں اچھی بات ہو تی ‘ اگر ان سے ان پارٹیوں میں کوئی بدلاؤ‘ کوئی تبدیلی آتی ‘کوئی نئی نظر اور کوئی نیا ویژن سامنے آتا… لیکن صاحب ایسا ہونے والا نہیں ہے… اور بالکل بھی نہیں ہے ۔پیپلز کانفرنس کے تنظیمی انتخابات ہو ئے اور …اور سجاد صاحب کو بلا مقابلہ صدر منتخب کیا گیا‘ دو بارہ منتخب کیا گیا ‘ کسی اور میں ہمت نہیں ہو ئی کہ وہ ان کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے … رہی نیشنل کانفرنس کی بات تو… تو اگر ڈاکٹر صاحب مستعفی ہو جاتے ہیں … نئے صدر کے انتخاب کی رہ ہموار کرنے کیلئے … تو بھی نتیجہ وہی ہوگا جو ہم سب جانتے ہیں… ڈاکٹر صاحب ایک بار پھر صدر منتخب کئے جائیں گے یا پھر ان کے بیٹے کو یہ اعزاز بخشا جائیگا … کوئی اور ‘عبداللہ خاندان سے باہر کوئی اور صدر نہیں بن سکتا ہے… اور بالکل بھی نہیں بن سکتا ہے کیونکہ یہ اس جماعت ‘ یا کشمیری سیاسی جماعتوں کی روایت نہیں رہی ہے اور… اور بالکل بھی نہیں رہی ہے ۔پھر بھی برائے نام ہی سہی ‘ کانگریس گاندھی نہرو خاندان سے باہر کسی کو اپنا صدر تو چن لیا … لیکن… لیکن کشمیرمیں ایسا ہونے سے رہا کہ بات عادت کی ہے اور روایت کی بھی ۔ ہے نا؟