حقیر اور اندھے سیاسی مقاصد اور مفادات کیلئے تاریخ کو مسخ کرنے یا پیش آمدہ حالات ،معاملات اور حقائق کو ان کے اصل اور سیاق وسباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے روکا تو نہیں جاسکتا ہے کیونکہ جمہوری طرزعمل کے حوالہ سے یہ بات عام اور مشہور ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق ہے البتہ تاریخ اور اس حوالہ سے واقعات تو مٹ نہیں سکتے اور نہ ہی ذہنوں سے انہیں مٹایاجاسکتاہے لیکن یہ بات ضرور ہے کہ وہ نسل جو تاریخ سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتی وہ ضرور لیکن کسی حد تک متاثر ہو تی ہے۔
جنوبی ایشیا کے اس خطے میں جتنے بھی ممالک دُنیا کے نقشے پر ہیں کے حوالہ سے ان ممالک کے بہت سارے چہرے ایسے ہیں جو تاریخی واقعات اور حقائق کو توڑ مروڑ کرپیش کرکے آج کی تاریخ میں اپنے سیاسی مقاصد اور سیاسی مفادات کے تناظرمیںنئے تانا بانا جوڑ توڑکر پیش کرنے کے راستے پر گامزن نظرآرہے ہیں۔ ایساکرکے وہ کیا کچھ حاصل کرنا چاہتے ہیں کچھ دانشور طبقے سیاستدانوں اوران کے حواریوں کی اس روش کو نئی روشنی کی عفریت یا فکری دہشت گردی تصور کررہے ہیں۔
جموں وکشمیر اس خطے کا ایک لازمی حصہ ہے وہ کیسے اس نوعیت کے معاملات سے مستثنیٰ رہ سکتاہے۔ جموںوکشمیرکی تاریخ بھی پیش آمدہ حالات واقعات کے حوالوں سے کچھ کم ہنگامہ خیز نہیں رہی ہے۔ مثالیں کئی ہیں، کس کس کا تذکرہ کیاجائے۔ تاہم تقسیم ہند کے وقت جموںوکشمیر کے ہند یونین کے ساتھ الحاق کو یقینی بنانے کی سمت میں اُس دور کے قد آور لیڈر مرحوم شیخ محمدعبداللہ کا رول تاریخ کے اوراق میں موجود ہے، الحاق سے لے کر اب تک سینکڑوں کتابیں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن میں الحاق کے حوالہ سے شیخ محمدعبداللہ کے رول کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ تاریخ کا ان مٹ حصہ اور سچائی ہے۔
لیکن آج کی تاریخ میں کچھ لوگ خود کو جموںوکشمیرکے نئے اوتاروں کے روپ میں پیش کرکے تاریخی واقعات اور اُن سے جڑے کرداروں کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی مسلسل کوشش کررہے ہیں اور ایک ایسے شخص کو الحاق کے حوالہ سے فیصلہ ساز اور قدآور شخصیت کے طور پیش کررہے ہیں جو وہ تھا نہیں بلکہ اُس وقت اس کی حیثیت کسی بھگوڑے سے کم نہ تھی۔ وہ خود جموںوکشمیر کو ایک آزاد مملکت کے طور دیکھنا چاہتے تھے جبکہ اس کا وزیراعظم رام چند مہاجن جموں وکشمیر کو کسی اور ہی روپ میں دیکھنے کی خواہش کا اظہار برملاطور کرچکاتھا۔ تاہم بحیثیت والی ریاست دستاویز الحاق پر اس کے دستخط لازم تھا۔
جموںوکشمیر کے لوگوںنے شیخ محمدعبداللہ کے فیصلے پر آنکھیں بند کرکے مہر تصدیق ثبت کردی، لبیک کہتے ہوئے ان کا ہاتھ تھاما اورلئے گئے فیصلے کے تعلق سے کوئی سوال نہیں کیا بلکہ فوج در فوج اپنے گھروں سے باہر نکل کر ’حملہ آوروں‘ کے آگے سینہ سپر ہوگئے۔ دو قومی نظریہ مسترد کرتے ہوئے اپنے لیڈر کی آواز کا احترام کرتے ہوئے ہندو مسلم سکھ اتحاد اور فرقہ وارانہ بھائی چارہ کا علم بلند کیا جس کا اعتراف خود گاندھی جی نے یہ کہکر کیا کہ ’’ان پُرآشوب حالات میں مجھے اُمید (روشنی) کی کرن صرف کشمیرسے نظرآئی‘‘۔
لیکن اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود اور یہ جانتے ہوئے کہ شیخ محمدعبداللہ نے الحاق کو یقینی بنانے کی سمت میں کس قدر تاریخ ساز رول اور کردار اداکیا، یہاں تک کہ کانگریس کی لیڈر شپ کو اپنا سیاسی آقا تک تسلیم کرلیا، اُسی قیادت نے باالخصوص شیخ محمدعبداللہ کی دوستی کا دم بھرنے والے نہرو نے نہ صرف اپنے آس پاس چند چاپلوس اور ابن الوقت عنصر کے بہکائوے میں آکر ان کے اختراعی افسانوں پر بھروسہ کرکے شیخ محمدعبداللہ کو اقتدار سے بے دخل کردیا، بلکہ جمہوریت کا بھی جنازہ نکالا اور ساتھ ہی اُس اعتماد کو بھی زمین بوس کرکے رکھدیا جس اعتماد کا عملی مظاہرہ اُس وقت کے لوگوں نے اپنے لیڈر کی قیادت میں کیاتھا۔ کانگریس کی حکومتی لیڈر شپ کے اسی پہلے احمقانہ اور بدبختانہ فیصلے نے کشمیر کے حوالہ سے پاکستان کو بطور آکسیجن کے پلیٹ پر رکھ کر پیش کیا اور تب سے اب تک کشمیر خصوصیت کے ساتھ اور جموں وکشمیر بحیثیت مجموعی کانگریس لیڈر شپ کے ان بدبختانہ فیصلوں کا خمیازہ بھگت رہاہے۔
پھر وقت گذرتے گذرتے یہی آکسیجن توانائی اور حجم حاصل کرتارہا، پھر چشم بینا نے ۶۵ء کو بھی دیکھا، اُس وقت بھی کشمیر نے اپنا وہی کرداراداکیا جو ۴۷ء اوراس کے بعد کے برسوں میںکیاتھا لیکن لوگوں کے اس ایک اور فیصلہ ساز اور عہد ساز رول کو بھی وقت کے حکمرانوں نے کسی خاطرمیں نہیں رکھا اور نہ ہی اپنی احمقانہ سوچ اور نظریے میں کوئی تبدیلی لائی، پھر ۷۱ء بھی دیکھا گیا، حالات سے متاثر ہو کر ۷۵ء میں اکارڈ کو جنم دیاگیا، سالہاسال کی جیل یاترا اور عہد شکنیوں کے باوجود کوئی تلخی اور ناگواری نہ رکھتے ہوئے شیخ محمدعبداللہ نے پھر اُسی کردارکو تسلسل بخشا جو کردار وہ ۴۷ء میں اداکرچکے تھے۔
لیکن یہ کردار اوررول بھی کانگریس کی مرکزی قیادت اور اس کی حکومت کو راس نہ آیا، اور ۸۶۔۸۷ء کے انتخابات کو راجیو فاروق اتحاد کو مصنوعی اور وقتی کامیابی عطاکرنے کیلئے ایک ایساراستہ اختیارکیاجس نے کشمیر کو چھلنی کرنے کا آخری کیل بھی ٹھونک دیا ۔ جو الیکشن ایجنٹ تھے انہیں گرفتار کرکے پولیس تھانوں میں ٹارچر سے گذارا گیا، ان کے سامنے ان کے والدین کو ننگا کرکے ازیت ناک سزائیں دی گئیں۔
کشمیر میں جمہوریت کا جنازہ نکالنے والے اصل مجرم اقتدار میں آتے رہے، عیش وعشرت کی زندگیاں بسر کرتے رہے، لیکن وہ جنہوںنے جمہوریت اور بیلٹ بکس پر اپنے غیر متزلزل اعتماد کا برملا مظاہرہ کیا انہیں بیلٹ اور جمہوریت کے راستے سے ہٹایا گیا، اسی تاریخی تلخ ترین سچائی کی طرف پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے بھی اپنے حالیہ صدارتی خطبے میں تذکرہ کیا اور مانگ کہ کیا اس پہلو کی تحقیقات انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ؟