یقین کیجئے کہ سوشل میڈیا نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا ہے… رفتار میں سب کو پچھاڑ دیا ہے… اس کے سامنے تو راکٹوں کی رفتار بھی ماند پڑ جاتی ہے … لگتا ہے کہ جیسے وہ کچھوے کی چال چل رہے ہیں… معاف کیجئے اُڑ رہے ہیں ۔ سوشل میڈیا پر جس رفتار … تیز رفتار سے سچ چلتا ہے ‘ اسی رفتار سے جھوٹ … اور ہاں افواہ بھی ۔ رفتار کے حوالے سے سوشل میڈیا پر سچ‘ جھوٹ اور افواہ میں کوئی امتیاز نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے… یہ اب آپ کی مہارت ‘ آپ کی قابلیت‘آپ کی ذہانت اور آپ کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ آپ سچ ‘جھوٹ اور افواہ میں امتیاز کر سکیں… اگر آپ کر پائے تو ٹھیک ‘نہیں تو آپ انگنت بار سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سمجھ بیٹھیں گے … پیر کی شام کو سوشل میڈیا پر معروف کشمیری گلوکار ‘عبدالرشید حافظ کے انتقال کی خبر ’بریک‘ کی گئی… کچھ ہی لمحوں میں اس ’خبر‘ کو فیس بک ‘ انسٹاگرام ‘ وٹس ایپ اور ٹویٹر پر شیئر کیا گیا…اور اسے شیئر کرنے میں گھنٹوں اور منٹ نہیں بلکہ کچھ ایک سیکنڈ لگ گئے… ہم نے بھی حافظ صاحب کے انتقال کی اس’خبر‘ کو سچ مان لیا… کیوں مان لیا ہم اب بھی اس کیلئے خود کو کوس رہے ہیں اور…اور اس لئے ہیںکیونکہ ہم یہ بھول گئے تھے اور… اور سو فیصد بھول گئے تھے… صحافت کے اس سنہری اصول کو بھول گئے تھے کہ کسی خبر کی تصدیق ایک نہیں بلکہ دو … دو ذرائع سے کرانی ضروری ہے۔ لیکن … لیکن صاحب یہ بھی سچ ہے کہ ہم بھی سوشل میڈیا اور اس کی رفتار کے زیر اثر آگئے ہیں اور… اور اس سنہری اصول کو بھول گئے تھے… اس کے باوجود بھو ل گئے تھے کہ حافظ صاحب کے انتقال کی خبر کی تصدیق اس کے کسی افراد خانہ نے نہیں کی تھی… بالکل بھی نہیں کی تھی… لیکن پھر بھی ہم اس جھوٹی خبر کو سچ مان گئے … اس سے پہلے کہ ہم بھی اس ’خبر‘ کو شیئر کرتے … حافظ صاحب کے بیٹے نے اس خبر کے جھوٹی ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد صاحب بقید حیات اور خیر و عافیت سے ہیں۔یقینا یہ سوشل میڈیا کا دور ہے‘ لیکن… لیکن صاحب اس بات کا خیال رکھئے کہ سوشل میڈیا پر جو کچھ بھی آپ کو دیکھنے اور پڑھنے کو ملتا ہے وہ سب سچ نہیںہوتا ہے… بالکل بھی نہیں ہوتا ہے کہ … کہ سچ صرف اخبارات میں آپ کو پڑھنے کو مل سکتا ہے…شاید !ہے نا؟