جموںوکشمیر کے مختلف علاقوں میں آئے روز کے ٹریفک حادثات میں قیمتی جانوںکا اتلاف نہ صرف ،اوسط شہریوں بلکہ ضلعی انتظامیہ، صوبائی انتظامیہ اور بحیثیت مجموعی حکومت کو قدم روک کر غوروفکر کی دعوت دے رہاہے۔ اہم سوال یہی ہے کہ کیوں ٹریفک حادثات کی اب بھرمار ہورہی ہے اور آخر اس بھرمار کی بُنیادی یا اہم وجوہات کیا ہیں۔
ان سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی اس لینڈ سکیپ کا از سر نو احاطہ لے کر باریک بینی سے تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔ عموماً ٹریفک حادثات کیلئے مسافر بردار گاڑیوںکی اورلوڈنگ ،تیز رفتار یا لاپروا ڈرائیونگ ، پرانی گاڑیوں پر زیادہ انحصار ، اور فرسودہ ٹریفک مینجمنٹ کو ذمہ دارتصور کیاجارہاہے لیکن یہ وجوہات ہی سب کچھ نہیں اور بھی دیگر کئی ایک وجوہات ہیں جن کو ایڈریس کئے بغیر ٹریفک حادثات پر قابو پانا ممکن نہیں۔
جموں وکشمیر کے مختلف علاقوں میں گذشتہ چندہ ماہ کے دوران پیش آئے ٹریفک حادثات اوران میں قیمتی انسانی جانوں کا اتلاف ہرکس وناکس کے لئے فکرمندی اور تشویش کا موجب ہے۔ لیکن فکر مندی اور تشویشات کے محض اظہار سے موت کے اس رقص بسمل پر قابو نہیں پایا جاسکتا ہے بلکہ قابو پانے کیلئے کئی ایک عملی بلکہ سخت گیرانہ اقدامات اب ناگزیر بن چکے ہیں۔لیکن اس ناگزیریت کو سنجیدگی سے نہ لینے سے گریز مجرمانہ فعل، اپروچ اور عوام دشمنانہ قراردیاجاسکتاہے۔
کچھ سال قب تک عملی اقدامات نہ اُٹھانے کے پیچھے عموماً ووٹ بینک کی سوچ سے منسوب کیا جاتارہاہے، اہم چوکوں، سڑکوں ، رابطہ سڑکوں، پلوں وغیرہ، فٹ پاتھوں پر ناجائز قبضوں، دکانداروں اور چھاپڑی فروشوں کی جانب سے ناجائز تجاوزات ، ریڈہ بانوں کی دیدہ دلیری اور سب سے بڑھ کر قانون کو کسی خاطرمیں نہ لانا وقت کے حکمرانوں اور ان کی قیادت میں انتظامیہ کا کورپٹ اور بدعنوان اپروچ اور آنکھ چرانے کا ثمرہ تصور کیاجاتا تھا لیکن اب جبکہ سارا منظرنامہ تبدیل ہوچکا ہے لیکن بدقسمتی سے وہی فرسودہ اور پرانا اپروچ اور انداز فکر چپے چپے پر دیکھا بھی اور محسوس بھی کیاجارہاہے۔
موجودہ حکومت اور ایڈمنسٹریشن کے متعلقہ کل پرزے نظریں کیوں چرارہے ہیں یا دوسرے الفاظ میں حکومت بحیثیت مجموعی بے اعتنائی کا سا اپروچ کیوں اختیار کررہی ہے یہ ناقابل فہم ہے لیکن یہ بات بھی عوامی سطح پر شدت سے محسوس کی جارہی ہے کہ پرانی اور فرسودہ روایتوں،سوچ اور طرزعمل کا خاتمہ انقلابات کے باوجود فوری طور سے نہیں ہوتا بلکہ یہ وقت طلب ہے۔ لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ٹریفک حادثوں کے پیچھے اہم وجوہات اور محرکات کو ایڈریس کرنے کی سمت میں ابھی تک کسی سنجیدگی سے کام نہیں لیاگیا ہے۔
دور دراز علاقوں میں ٹریفک کی آمد ورفت پر قریب سے نگاہ رکھنا اور قدم قدم پر ٹریفک عملہ تعینات کرنا ممکن نہیں، اس کا براہ راست بلکہ ناجائز فائدہ ٹرانسپورٹر اور ڈرائیور اُٹھارہے ہیں۔ اورلوڈنگ کی وبا ان کا روز کا معمول بن چکاہے۔پھر پرانی اورا نجر پنجر ڈھیلی والی گاڑیوں کو دشوار گذار سڑکوں پر دوڑانا ان کی فطرت ثانی بن چکی ہے۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آرہی ہے کہ کیوں پرانی گاڑیوں کو چلنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ جبکہ ضلع انتظامیہ اور ٹریفک کے حکام اچھی طرح سے یہ جانکاری رکھتے ہیں کہ سڑکیں خستہ حالت میں ہیں، دشوار گذار بھی ہیں، زیادہ تر سڑکیں گہری کھائیوں کے شانہ بشانہ ہیں، ڈرائیور کی معمولی سی غفلت یا کوتاہی انسانی جانوں کے اتلاف پر منتج ہوجاتی ہیں۔ چناب خطہ ہویا پیرپنچال خطہ، سڑک حادثوں اور جانی اتلاف کا گراف ان دو خطوں میں سب سے زیادہ ہے۔
کیا ان حادثات کیلئے جموں کی صوبائی انتظامیہ اور اس کی ماتحت ضلعی انتظامیہ براہ راست ذمہ دار نہیں ؟جموں کی صوبائی انتظامیہ ان دونوں خطوں میں سڑکوں کی حالت بہتر بنانے کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کررہی ہے یہ علاقائی تعصب کا ثمرہ ہے یا کوئی سیاسی مصلحت، جو کچھ بھی اس امیتاز کے پیچھے وجوہات ہیں قابل مذمت ہی نہیں بلکہ صوبائی انتظامیہ کیلئے شرمندگی کا باعث ہیں۔
ان خطوں میں ٹریفک مینجمنٹ کا وہی روایتی اور فرسودہ نظام رائج ہے جبکہ ہر گذرنے والی گاڑی سے نذرانہ کی وصولی ٹریفک مینجمنٹ سے کہیں زیادہ ان کی ترجیح ہے۔ ندائے مشرق کی گذشتہ اشاعت میں ضلع پونچھ میں… پونچھ جموں قومی شاہراہ پر درنگی نالہ پل جو ۸؍ سال قبل سیلاب کی نذر ہوا تھا اور جس کا ایک حصہ ٹوٹ گیا تھا کی مرمت کے حوالہ سے ضلع اور صوبائی انتظامیہ کی عدم توجہی کے تعلق سے تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی، مقامی آبادی کا شکوہ ہے کہ ۸؍سال گذرنے کے باوجودپل کی سرنو تعمیر یا مرمت کیوں نہیں کی جارہی ہے۔ مقامی انجینئرنگ محکمے کے حکام کا کہنا ہے کہ سڑک بارڈر روڈس آرگنائزیشن کے تحت ہے، یہ عذر لنگ بھی تسلیم کیاجائے تو صوبائی اور ضلعی انتظامیہ سے کیا مقامی آبادی یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ کیوں ۸؍سال کے دوران انہوںنے بی آر او سے رجوع نہیں کیا جبکہ خود بی آر او بھی اس مجرمانہ غفلت کا براہ راست ذمہ دار ہے۔
بہرحال ٹریفک حادثات میں جاں بحق افراد کے لواحقین اور زخمی افراد کے حق میں کچھ امدادی رقم کی منظوری اور ادائیگی ہی اس سنگین مضمرات کے حامل مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ صورتحال کا مجموعی احاطہ کرنے اور تجزیہ کرکے سنجیدہ اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے ۔ ٹریفک مینجمنٹ کو سرنو ترتیب دینے ، پرانی اور خستہ حال گاڑیوں کے استعمال پر پابندی عائد کرنے، خستہ حال سڑکوں کی مرمت اور تعمیر نو اورڈرائیوروں اور ٹرانسپورٹروں کوذمہ دار قراردے کر کسی حد اعتدال میں رکھنے کی حکمت عملی وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے۔