نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے۱۹۹۰میں کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کی ’ٹارگٹ کلنگ‘کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) سے جانچ کرانے کی درخواست جمعہ کو مسترد کر دی۔
جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ نے دائرہ اختیار کا حوالہ دیتے ہوئے درخواست پر سماعت کرنے سے انکار کردیا۔
بنچ نے کہا کہ یہ خالصتاً مرکزی حکومت کا دائرہ اختیار ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے تاہم عرضی گزار این جی او ’وی دی سٹیزن‘کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں اور مرکزی حکومتوں کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کرنے کی اجازت دی۔
ایڈوکیٹ برون کمار سنہا کے توسط سے دائر درخواست میں وادی سے ہجرت کرنے والوں کی بازآبادکاری اور۱۹۸۹سے۲۰۰۳کے دوران ہندو اور سکھ برادریوں کی’نسل کشی میں مدد اور حوصلہ افزائی کرنے والوں‘کی نشاندہی کرنے کیلئے ایس آئی ٹی تشکیل دینے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
درخواست گزار نے راہل پنڈت کی کتاب ’اوور مون ہیج بلڈ کلاٹس‘ کا بھی حوالہ دیا، جس میں ہندوؤں اور سکھوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی براہ راست تفصیل دی گئی ہے ۔ ان کی درخواست میں الزام لگایا گیا کہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زیادہ ہندوؤں کا قتل عام کیا گیا۔
درخواست میں الزام لگایا گیا کہ پولیس اور دیگر ریاستی مشینری اس وقت حکمران سیاسی جماعتوں کی قیادت سے اس قدر متاثر تھی کہ ’مذہبی قتل و غارت گری‘ کے مرتکب افراد اور مرکزی ملزموں کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ وادی کشمیر میں ۹۰۔۱۹۸۹میں کشمیری ہندوؤں اور سکھوں کی وحشیانہ نسل کشی اور ان کی نقل مکانی آئینی مشینری کی جان و مال کے تحفظ اور کشمیری ہندوؤں اور سکھوں کی نسل کشی کو روکنے میں مکمل ناکامی کی زندہ مثال ہے ۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس وقت کشمیر میں آئین ہند کے آرٹیکل۱۴‘۱۹؍ اور۲۱کے تحت جن بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ان کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔