کوچی/ ۲ستمبر
وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ کو پہلے مقامی طیارہ بردار بحری جہاز آئی این ایس ’وکرانت‘کوملک کے نام وقف کیا جس کے ساتھ ہی یہ باقاعدہ طورپر بحریہ کے بیڑے میں شامل ہوگیا۔
آج کا دن بحریہ کے لیے ایک تاریخی دن ہے کیونکہ 25 سال بعد وکرانت ایک بار پھر ایک نئے روپ میں اور نئی طاقت کے ساتھ بحریہ کا فخر بن گیا ہے ۔ وکرانت کا مطلب ہے فاتح، بہادر اور ممتاز۔
وکرانت ہندوستان میں بنایا گیا اب تک کا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے اور اسے بنانے میں 20 ہزار کروڑ سے زیادہ کی لاگت آئی ہے ۔ یہ ہندوستانی بحریہ کے لیے پہلا مقامی طور پر ڈیزائن اور بنایا ہوا طیارہ بردار بحری جہاز بھی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی بحریہ کے پاس دو طیارہ بردار بحری جہاز ہوگئے ہیں اور اس کی فائر پاور کئی گنا بڑھ گئی ہے ۔ اس طیارہ بردار جہاز کی تعمیر کے ساتھ ہی ہندوستان دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جو طیارہ بردار بحری جہاز بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جہازمیں استعمال ہونے والا 76 فیصد سازوسامان گھریلو کمپنیوں کے ذریعہ بنایا گیا ہے ۔ بحر ہند میں ہندوستان اورزیادہ مضبوطی یکے ساتھ اپنی موجودگی درج کرائے گا۔
وزیر اعظم نے اس موقع پر نئی بحریہ کے نئے پرچم (نشان) کی نقاب کشائی بھی کی، جو بحریہ کو نوآبادیاتی ماضی سے الگ کرکے خوشحال ہندوستانی سمندری ورثے کی علامت ہے ۔ اس نشان کا تصور چھترپتی شیواجی مہاراج کی بحریہ سے لیا گیا ہے ۔ کموڈور ودیادھر ہرکے کو طیارہ بردار جہاز وکرانت کا کمانڈنگ آفیسر بنایا گیا ہے ۔ بحریہ کے سربراہ ایڈمرل آر ہری کمار نے کموڈورہرکے کو طیارہ بردار بحری جہاز کے آپریشن کے لئے کمیشن وارنٹ سونپا۔ وکرانت کا نعرہ ہے ،’میں ان لوگوں کو شکست دیتا ہوں جو میرے خلاف لڑتے ہیں‘۔
قبل ازیں، کوچین شپ یارڈ پہنچنے پر مسٹرمودی نے گارڈ آف آنر کا معائنہ کیا۔
ہندوستانی بحریہ کے وارشپ ڈیزائن بیورو (ڈبلیو ڈی بی) کے ذریعہ ڈیزائن کیا گیا اور بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کی وزارت کے تحت ایک پبلک سیکٹرکے شپ یارڈ میسرس کوچین شپ یارڈ لیمیٹڈ (سی ایس ایل) کے ذریعہ بنایا گیا، دیسی طیارہ بردارجہاز کا نام اس کے شاندارپچھلے – ہندوستان کے پہلے طیارہ بردار بحری جہازکے نام پر رکھا گیا‘ جس نے 1971 کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیاتھا۔ آئی اے سی کی بنیاد اپریل 2005 میں روایتی اسٹیل کٹنگ کے ذریعے رکھی گئی تھی۔
وکرانت کے تمام مراحل کے ٹرائلزگزشتہ اگست میں مکمل ہو گئے تھے جس کے بعد اسے شپ یارڈ نے باضابطہ طور پر بحریہ کے حوالے کر دیا تھا۔