نہیں صاحب ہمیں اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور بالکل بھی نہیں ہے کہ … کہ آستانوں میں جبری چندہ اور نذارنہ وصول کرنے پر پابندی صحیح ہے یا غلط…یہ سیاسی فیصلہ ہے یا غیر سیاسی … اس فیصلہ کی مخالفت کرنے والے سیاست کررہے ہیں یا اس فیصلہ کو مسلط کرنے والوں کے پیچھے کوئی سیاسی مقصد ہے… اللہ میاں کی قسم ہمیںاس سب میں کوئی دلچسپی نہیں ہے… وقف بورڈ کی خاتون سربراہ کو اگر لگتا ہے وہ جو کررہی ہیں ٹھیک کررہی ہیں… اور انہیں ایسا کرنا ہے تو… تو صاحب انہیں یہ سب کچھ کرنے دیجئے کہ …کہ صحیح یا غلط کا فیصلہ تاریخ خود کرتی ہے… اس لئے ہم اس پر مزید بات نہیں کرنا چاہتے ہیں… اس پر ہمیں مزید بات کرنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آ رہی ہے… ہاں البتہ اتنا ضرور کہنا چاہتے ہیںکہ … کہ وقف بورڈ میں اس کے علاوہ بہت سارے کام ہیں… ایسے کام جنہیں کرنے کی ضرورت ہے اورہمیں امید ہے کہ بورڈ کی خاتون سربراہ ان کاموں سے اپنا کام رکھیں گی…اور اس لئے رکھیں گی کیونکہ یہ کام سچ میں کرنے والے کام ہیں… وقف بورڈ ایک بڑے فلاحی ادارے میں بدل سکتا ہے… اس کی پوری گنجائش بھی موجود ہے… ایسا ادارہ جس کے تحت وادی میں ایسے فلاحی کام کئے جا سکتے ہیں جس سے عام لوگوں کوہوگا…اسی طرح جس طرح ٹنل کے اُس پار ماتا ویشنودیوی شرائن بورڈکررہا ہے ۔ایسے کام جس سے بڑی تعداد میں لوگوں کا بھلا ہو رہا ہے…بورڈ نے ایک نقشہ راہ چھوڑ رکھا ہے… بورڈ کے کام وقف بورڈ کیلئے ایک ماڈل ہیں…اور اگر خاتون سربراہ واقعی میں کچھ کام کرنا چاہتی ہیں تو… تو چھوٹی موٹے چیزوں پر دھیان دینے کے بجائے محترمہ وادی کے وقف بورڈ کو ایک ایسے ادارے میں تبدیل کر سکتی ہیں جس سے وادی کی پوری آبادی مستفید ہو سکتی ہے…وادی میںتعلیم و تحقیق اوراچھے طبی اداروں کی واقعی میں ضرورت ہے اور… اور وقف بورڈ کو اگر صحیح سمت میں چلاجا ئے تو یہ اتنے وسائل پیدا کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے… جنہیں بروئے کار لا کر اعلیٰ معیار کے ہسپتال ‘تعلیمی اور پیشہ وارانہ ادارے قائم کئے جا سکتے ہیں…ایسا ممکن ہے اگر ہم اپنی نظریں نذرانہ پیٹیوں سے ہٹا کراُدھر جمائیں جہاں اب تک کسی کی نظر نہیں گئی ہیں…محترمہ ایسا کر پائیں گی یا صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلائیں گی …اس کا بھی پتہ چل ہی جائیگا… آج نہیں تو کل‘ کل نہیں تو پرسوں ۔ہے نا؟