جموں وکشمیر کو منشیات سے پاک خطہ بنانے کی سمت میں کچھ مدت سے مسلسل جو کوششیں کی جارہی ہیں مختلف وجوہات کی بنا پر وہ سوفیصد نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہیں ۔ ناکامی کی وجوہات کئی ہیں ۔ ان وجوہات میں ایک یہ ہے کہ منشیات کی سپلائی چین نہ صرف برقرار ہے بلکہ اس چین کو اس دھندہ کو چلانے والے ہر گذرتے دن کے ساتھ مضبوط ومستحکم بنارہے ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ اس چین کے اصلی سرغنہ (وں) قانون کی گرفت میں ابھی تک نہیں آپارہے ہیں جس وجہ سے ا نکی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔تیسری وجہ یہ ہے کہ منشیات کی سمگلنگ کیلئے روایتی راستوں اور طریقوں میں تبدیلی لائی جارہی ہے اور جدید ٹیکنالوجی بشمول ڈرون وغیرہ کا استعمال بڑھتا جارہاہے۔
سرزمین کشمیر اس لعنت اور وبا سے پاک تھی، لیکن وقت گذرتے ولیوں ، اولیائوں ، سنتوں، منیوں،صوفیوں، درویشوں اور تقویٰ گذار بزرگوں کی اس سرزمین کو بھی منشیات کی لت میں مبتلا کردیاگیا۔ پہلے مقامی کاشت کاروں نے اپنی اراضیوں پر بھنگ اور دیگر منشیات کی کاشت کے دائرے میں لایا اور پھر آہستہ آہستہ ہندوستان اور بیرونی دُنیا سے امپورٹ مختلف قسم کی ادویات کو نشہ کے طور استعمال کرنے کی وباچل پڑی۔زمین کو نم پاکر سرحدوں کے راستے منشیات کی سمگلنگ کا دھندہ شروع ہوا، اس لعنت سے وابستہ افراد نے سکولوں ،اداروں ، ہسپتالوں، پارکوں ، باغات ، آئس کریم پالروں وغیرہ کو نشانہ بناکر اس لعنت کو پھیلانا شروع کردیا۔ جب تک سماج اور انتظامیہ اس وبا کا قلع قمع کرنے یا روک تھام کے لئے حرکت میں آجاتی تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
کشمیر یا جموں میں منشیات کے حوالہ سے کوئی کارخانہ یا فیکٹری نہیں،ا گرچہ بھنگ وغیرہ کی کاشت مقامی سطح پر ہورہی ہے لیکن منشیات کی بھاری مقدار سرحد کے اُس پار افغانستان، پاکستان اوردوسرے کچھ ملکوں سے سمگل کی جارہی ہے۔ ہر سال کروڑوں روپے مالیت کی منشیات پکڑی جارہی ہے جبکہ اس لعنت سے وابستہ چھوٹے بڑے پولیس کی گرفت میں لائے جارہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ جوں جوں دوا کی جارہی ہے اُسی قدر مرض بڑھتا ہی جارہاہے۔ انتظامی سطح پر ہی نہیں بلکہ این جی اوز کی وساطت سے بھی ڈی ایڈکشن مراکز کام کررہے ہیں لیکن چونکہ منشیات کے عادی افراد کی آبادی اب لاکھوں میں ہے لہٰذا اس پر قابو پانے میں ابھی کچھ اور وقت درکار ہے۔
اس تعلق سے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا نے نشہ مکت جموںوکشمیر کی تحریک کاآغاز کردیاہے۔جوکہ اس سمت میں ایک اور اچھی بلکہ مستحسن اور قابل تقلید قدم ہے ، لیکن یہ تحریک عام لوگوں ، نشہ کے عادی افراد کے گھروالوں، والدین، سماج کے ہر طبقے سے وابستہ ذمہ داروں ، حساس شہریوں ، ذمہ دار متعلقہ اداروں، اساتذہ ، ماہرین طب ونفسیات اور میڈیا کے ذمہ دارانہ اور معاونتی کردار کے تعاون کے بغیر اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکتی ۔ خود گورنر نے بھی سماج کے ان طبقوں سے منشیات کی وبا پر قابو پانے کیلئے تعاون کی اپیل کی ہے ۔و قت اور حالات کا بھی تقاضہ یہی ہے کہ معاشرے کا ہر طبقہ، ہر گھرانہ، ہر ادارہ اس نیک کام میں اپنا مٹھی بھر کرداراداکرکے جموںوکشمیر کو نشہ مکت کرنے کی سمت میں متحرک ہوجائے۔
صورتحال سے نمٹنے کیلئے قوانین موجود ہیں لیکن مشاہدہ میں یہ بات آئی ہے کہ مروجہ قوانین میں موجود کچھ خامیوں کا ناجائز فائدہ بھی اُٹھایا جارہاہے۔ جو لوگ پکڑے جارہے ہیں انہیں سزائیں تو دی جارہی ہیں لیکن وہ سزائیں عبرت ناک نہیں کہ دوسرے عبرت حاصل کرسکیں۔ مقامی طور پر بھنگ کی کاشت کرنے والوں کے خلاف بھی کوئی سخت گیر کارروائی نہیں کی جارہی ہے ۔مختلف سرکاری اداروں پر مشتمل ٹیمیں پولیس کی مدد سے بھنگ کی فصل تباہ توکررہے ہیں لیکن کاشت کرنے والوں کو سخت گرفت میں نہیںلایاجارہاہے۔ ایسی زمین جس پر بھنگ وغیرہ کی کاشت کی جارہی ہو کو بحق سرکار کچھ برسوں کیلئے ضبط کیاجاسکتا ہے اور وہ اراضی محکمہ ہارٹیکلچر ، محکمہ باغبانی وغیرہ متعلقہ اداروں کی تحویل میں دی جاسکتی ہے۔
جو لوگ اس دھندہ میں ملوث ہیں بھلے ہی وہ دولت بٹور رہے ہیں لیکن کشمیر کی معاشرتی اقدار، اس کی معیشت ، حال اور مستقبل اور سب سے بڑھ کر گھروں اور خاندانوں کا سکون تباہ وبرباد کرنے کے سنگین جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے۔ ان بدکاروں کے اس ناقابل معافی جرم کی سنگینی کا احساس جب تک نہ پورے معاشرے اور ہر فرد کو ہوگا اس وقت تک یہ تباہی اور بربادی کا موجب بنارہے گا۔ لہٰذا مسئلہ کی سنگینی کا احساس اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس عفریت جو کشمیر اور جموں کے سماجوں کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنارہی ہے کا قلع قمع کرنا اب ناگزیر بن رہا ہے۔
اس وبا کا قلع قمع کرنا اکیلے حکومت اور اس کے اداروں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے، بلکہ ہم سب کی اخلاقی اور معاشرتی ذمہ داری بھی ہے ۔ یہ وبا دہشت گردی، فرقہ پرستی اور علاقہ پرستی سے کہیں زیادہ تباہ کن اور سنگین مضمرات کی حامل ہے ۔ا گر چہ دُنیا کے نقشے پر قائم کچھ ریاستیں سرکاری آشیرواد اور معاونتی کردار کے ساتھ منشیات کی پیداوار، سپلائی چین کی تنظیم، مارکیٹنگ، بازاروں کی تلاش اور خریدوفروخت کے تعلق سے سراپا ملوث ہیں۔ یہ بھی ایک اہم ترین وجہ ہے کہ عالمی سطح پر منشیات کی پیداوار ، کھپت ، سمگلنگ اور خرید وفروخت قابو میں نہیں آرہی ہے۔
جہاں تک جموںوکشمیر کا تعلق ہے ہماری بدقسمتی اور المیہ یہ ہے کہ ہماری ریاست کی سرحدیں چین ، افغانستان ، پاکستان کے ساتھ مشترکہ ہیں اوران سرحدوں کو منشیات کی سمگلنگ کیلئے استعمال کیاجارہاہے اس سمگل شدہ منشیات کی خریدوفروخت میں بہت سارے مقامی ایجنٹ اہم کرداراداکررہے ہیں، یہ انہی بدکاروں اور سیاہ کاروں کی سیاہ کاریاں ہیں کہ کشمیر میںلت میں مبتلا لوگوں کی تعداد چھ لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ جو بحیثیت مجموعی ہم سب کے لئے فکر وتشویش اور اضطراب کا موجب ہے۔