جموں/۴مارچ
جموں کشمیر حکومت نے کہا ہے کہ اس نے زعفران کی کاشت میں کمی کو کامیابی کے ساتھ روک دیا ہے اور زعفران کی کاشت کا رقبہ 3715 ہیکٹر پر برقرار رکھا ہے۔
وزیر زراعت جاوید احمد ڈار نے کہا کہ توسیع کےلئے نئے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور مرکز کے زیر انتظام علاقے میں زعفران کی کاشت کو فروغ دینے میں محکمہ کے کام کی تحقیقات کی جائیں گی۔
ان کاکہنا تھا”حکومت نے زعفران کی کھیتی میں گراوٹ کو کامیابی سے روکا ہے۔ 2010-11 کے بعد سے زعفران کی کاشت کا رقبہ 3715 ہیکٹر پر مستحکم رہا ہے جس میں کشمیر ڈویڑن میں 3665 ہیکٹر اور کشتواڑ میں 50 ہیکٹر شامل ہیں“۔
وزیر زراعت نے ایوان میں وقفہ سوالات کے دوران نیشنل کانفرنس کے رکن جسٹس حسنین مسعودی کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ قومی زعفران مشن نے جموں کشمیر میں زعفران کی کاشت کو کامیابی کے ساتھ بحال کیا ہے ، جس سے کسانوں کی پیداوار اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔تاہم وزیر زراعت نے کہا کہ آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے اور زمین پر تجاوزات جیسے اہم چیلنجز بدستور موجود ہیں۔
ڈار نے کہا کہ حکومت نے 2010-11 میں کشمیر کی زرعی یونیورسٹی کے ذریعہ تیار کردہ ایک فلیگ شپ اسکیم کے تحت 400.11 کروڑ روپے کے مالی اخراجات کے ساتھ اس مشن کا آغاز کیا تھا۔
ان کاکہنا تھا”اس میں سے 315.99 کروڑ روپے حکومت ہند اور 84.12 کروڑ روپے کسانوں نے دیے۔ اب تک 269.91 کروڑ روپے جاری کئے جا چکے ہیں اور 259.67 کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں“۔
وزیر زراعت نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جدید تکنیک کے نفاذ سے زعفران کی پیداوار 2009-10 میں 2.50 کلوگرام فی ہیکٹر سے بڑھ کر 2023 میں 4.42 کلوگرام فی ہیکٹر تک پہنچ گئی ہے۔
ڈار نے کہا”انڈین انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر زعفران اینڈ ٹیکنالوجی سینٹر (آئی آئی کے ایس ٹی سی) کے قیام اور فصل کی کٹائی کے بعد سائنسی طریقوں کو متعارف کرانے سے کسانوں کو کافی فائدہ ہوا ہے“۔
وزیر زراعت نے کہا کہ 22-2021 میں زعفران کی قیمت 80 ہزار روپے فی کلو سے بڑھ کر 2 لاکھ 20 ہزار روپے فی کلو ہوگئی جبکہ زعفران کی برآمدگی 22 گرام فی کلو سے بہتر ہو کر 28 گرام فی کلو ہوگئی جس سے مجموعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔
برآمدات اور آمدنی کے رجحانات کے بارے میں ڈار نے کہا کہ زعفران کی پیداوار 2022 میں 14.87 میٹرک ٹن بڑھ کر 2023 میں 14.94 میٹرک ٹن ہوگئی ہے جبکہ پیداوار کی مالیت 2023 میں 291.33 کروڑ روپے رہی جو 2022 میں 261.38 کروڑ روپے تھی۔
سیاسی پارٹیوں کے مختلف ارکان نے آگے کی کارروائی اور زعفران کی کاشت کے رقبے میں اضافے کے بارے میں ضمنی سوالات اٹھائے۔
بی جے پی کے سنیل شرما نے جواب میں بے ضابطگیوں کا الزام لگایا اور وزیر سے اس کو درست کرنے کا مطالبہ کیا۔ کچھ ممبروں نے مشن پروگرام پر اخراجات کی تحقیقات کا الزام لگایا۔
اسپیکر عبدالرحیم راتھر نے ارکان کے تحفظات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مداخلت کی۔
وزیر زراعت نے ضمنی سوالوں کے جواب میں مزید کہا کہ آئی آئی کے ایس ٹی سی میں جدید پروسیسنگ کی وجہ سے زعفرانی رنگ کا معیار بھی 8 فیصد (روایتی خشکی) سے بڑھ کر 16 فیصد (سائنسی خشکی) ہوگیا ہے۔انہوں نے کہا کہ مڈل مین کو ختم کرنے اور منصفانہ قیمتوں کو یقینی بنانے کےلئے ، حکومت نے ای نیلامی کا نظام متعارف کرایا۔
ڈار نے مزید کہا”اس سے شفاف لین دین ممکن ہوا ہے، جس سے پورے ہندوستان میں زعفران کے کاشتکاروں کےلئے مناسب فارم گیٹ قیمتوں کو یقینی بنایا گیا ہے“۔
ان کامیابیوں کے باوجود وزیر نے آبپاشی کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں خلا کو تسلیم کیا۔
زعفران سے متعلق قومی مشن نے 124 اجتماعی بورویل تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا، جن میں سے ہر ایک 30 ہیکٹر رقبے پر کام کر رہا تھا، تاکہ 3665 ہیکٹر زعفران کے کھیتوں کے لیے چھڑکاو¿ آبپاشی فراہم کی جا سکے۔
ایک اور چیلنج بور ویلوں کی بار بار آپریشنل لاگت ہے، جسے کسان برداشت کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ان کاکہنا تھا”بہت سے کسانوں کو دیکھ بھال کے اخراجات بہت زیادہ لگتے ہیں، جس کی وجہ سے آبپاشی کی مکمل کوریج میں مزید تاخیر ہوتی ہے“۔
وزیر نے رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور زمین پر قبضہ کرنے والوں سے زعفران کی کاشت کو لاحق خطرات پر بھی روشنی ڈالی۔
ڈار نے کہا”اسپرنکل آبپاشی کے نظام اور بور ویلوں کو نقصان پہنچنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ تجاوزات کے بارے میں ریونیو حکام کے پاس شکایات درج کرائی گئی ہیں“۔
ایک سرکاری کمیٹی نے پایا کہ 77 بور ویل غیر فعال ہیں، جبکہ سرینگر اور بڈگام میں صرف آٹھ بور ویل کام کر رہے ہیں۔
ان رکاوٹوں کے باوجود ڈار نے اس بات پر زور دیا کہ زعفران سے متعلق قومی مشن نے اپنے زیادہ تر مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔انہوں نے کہا”چیلنجز بدستور موجود ہیں، خاص طور پر آبپاشی میں، ہم نے نمایاں پیش رفت کی ہے۔ حکومت ان خلا کو دور کرنے کےلئے پرعزم ہے“۔
پالیسی فیصلوں میں کسانوں کی شرکت کو یقینی بنانے کےلئے حکومت نے زعفران کے کاشتکاروں، تاجروں اور سول سوسائٹی کے ممبروں کی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ ان کے خیالات کو شامل کیا جاسکے۔
وزیر زراعت نے کہا”زعفران مشن کی کامیابی کا انحصار کسانوں کی مسلسل مصروفیت، آبپاشی کے بہتر نظام اور زمین ی تجاوزات سے تحفظ پر ہے۔“