سرینگر/۱۳ستمبر’ویب ڈیسک)
جموں کی سرحدیں منشیات کی اسمگلنگ کا گڑھ بنی ہوئی ہیںجبکہ سرحد پار سے منشیات لے جانے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ درج ہوا ہے۔
انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے سیکورٹی عہدیداروں نے بتایا کہ شمالی کشمیر کے ساتھ چلنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے مقابلے میں جموں خطے کی سرحدیں جموں و کشمیر میں منشیات کی اسمگلنگ میں مدد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور منشیات کی نقل و حمل کےلئے خواتین کو تیزی سے تعینات کیا جا رہا ہے۔
عہدیداروں کے مطابق جموں و کشمیر میں منشیات کی آمد میں تیزی سے اضافے اور سیکورٹی فورسز اور شہریوں پر حملوں کو انجام دینے کے لئے فنڈز جمع کرنے میں ان کے استعمال کے بعد نئے مشاہدات سامنے آئے ہیں۔
گزشتہ تین سالوں میں مرکز کے زیر انتظام علاقے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے حملوں میں منشیات ایک اہم کردار ادا کرتی رہی ہے اور اس لعنت پر قابو پانا سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔
عہدیداروں نے کہا”صرف کشمیر میں، پانچ سالوں میں منشیات کے استعمال میں 30 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے“۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک کئی معاملے درج ہونے کے باوجود، صرف چند اسمگلر پکڑے گئے ہیں۔ جموں و کشمیر میں منشیات بیچنے والا اوسطاً 3 لاکھ روپے تک نقد کماتا ہے۔
عہدیداروں نے بتایا کہ پونچھ میں ایل او سی کے قریب تتاپانی اور عباس پور ، جموں میں دریائے چناب کے ساتھ اور سانبا کے قریب پنگدور اور گھگوال جیسے علاقے جموں بیلٹ کے ان علاقوں میں شامل ہیں جہاں جموں و کشمیر میں منشیات کی سب سے زیادہ اسمگلنگ ہوتی ہے۔
وادی کشمیر میں زیادہ تر منشیات کی اسمگلنگ بارہمولہ اور کپواڑہ کے علاقوں میں ہوتی ہے، خاص طور پر وہ جو شمسباری ریج کے قریب واقع ہیں۔
سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ایک ذرائع نے کہا، ”جموں و کشمیر میں منشیات کی اسمگلنگ دہشت گردی کی مالی اعانت کے سب سے بڑے ذریعہ کے طور پر ابھرنے کی اہم وجوہات میں افغانستان،پاکستان خطے میں افیون کی پیداوار میں اضافہ، دہشت گردی کی فنڈنگ پر قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کا کریک ڈاو¿ن اور وبائی امراض کے بعد ملک کی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات شامل ہیں“۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردی کی مالی معاونت کے علاوہ وہ نوجوانوں کو لون وولف حملوں کے لیے انسانی وسائل بھی فراہم کر سکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق، عام طریقہ کار میں یا تو منشیات کے پیکٹ کو جسمانی طور پر ایل او سی پر منتقل کرنا یا اسے قریب چھوڑنا شامل ہے۔ ایل او سی باڑ سے آگے واقع گاو¿وں میں رہنے والے قلیوں، کسانوں اور یہاں تک کہ سرکاری اہلکاروں کی بھی شمولیت رہی ہے، جنہوں نے باڑ کے اوپر سے کھیپ کو منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک اور ذرائع نے بتایا کہ سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندرونی تجزیے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین پولیس اہلکاروں کی غیر موجودگی میں کراسنگ پوائنٹس پر منشیات لے جانے کےلئے خواتین کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ منشیات جسم اور گاڑیوں میں لے جائی جاتی ہیں جنہیں چھپانے کے لیے ان میں ترمیم کی جاتی ہے، زیادہ تر اسمگلنگ شادیوں، جنازوں اور طبی معاملات جیسے پرہجوم تقریبات کے دوران ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ چند سالوں میں سرحد پار سے منشیات کی نقل و حمل کے نئے طریقے بھی سامنے آئے ہیں۔
گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی ٹریفک کے درمیان کم چیکنگ کے پس منظر میں سرینگر جموں شاہراہ کے ذریعے منشیات آسانی سے منتقل کی جاتی ہیں۔ سامان لے جانے والے ٹرک اکثر ان منشیات کو بنیہال سرنگ کے ذریعے لے جاتے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ تازہ ترین واقعات کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ دروں پر مکمل جانچ پڑتال کے باوجود ، وہ منشیات کی اسمگلنگ کا ایک اہم راستہ بھی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، منشیات کی کھیپ ایل او سی باڑ اور پاس کے درمیان اتاری جاتی رہتی ہے اور جب بھی یو ٹی کے اندر سے ضرورت ہوتی ہے، تو اسے تاجروں، پورٹروں، مزدوروں، سرکاری ملازمین اور دکانداروں کے گٹھ جوڑ میں شامل لوگوں کی مدد سے پہنچایا جاتا ہے۔