سرینگر//
اسرائیل کی ایمرجنسی سروسز کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیلی علاقوں میں راکٹ داغے جانے اور زمینی حملوں کے بعد کم از کم۷۰ اسرائیلی ہلاک اور ۷۰۰ سے زائد زخمی ہو گئے ہیں جبکہ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے جوابی حملوں میں ۲۰۰ افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ گذشتہ کئی برسوں میں اسرائیل فلسطین تنازع میں ہونے والی شدید ترین کشیدگی میں سے ایک ہے۔ عسکریت پسند گروپ حماس کے جنگجو صبح سحر کے وقت غزہ سے اسرائیل میں داخل ہوئے۔ عینی شاہدین کے مطابق وہ موٹر سائیکلوں، پیراگلائیڈرز اور کشتیوں پر بھی اسرائیل میں داخل ہوئے۔ ایسے کسی حملے کی اس سے پہلے نظیر نہیں ملتی۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اسرائیلی دفاعی فورسز نے تصدیق کی ہے کہ حملوں کے بعد فلسطینی عسکریت پسندوں نے کئی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے تاہم ان کی تعداد کے بارے میں ابھی تصدیق نہیں کی گئی۔
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے غزہ سے اسرائیل پر راکٹ داغے ہیں۔ حماس کے رہنما محمد دیف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب بہت ہو چکا ہے۔ ‘
ادھر اسرائیل نے بھی حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کے بعد غزہ کی پٹی میں راکٹوں کے حملوں کے جواب میں اہداف کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
بین الاقوامی امدادی ادارے ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے تنازع میں شامل فریقین پر زور دیا ہے کہ وہ ’بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت اپنی قانونی ذمہ داریوں کا احترام کریں‘ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ شہریوں اور طبی عملے کا تحفظ کیا جائے۔
بتایا گیا ہے کہ عسکریت پسند گروپ حماس سے تعلق رکھنے والے درجنوں مسلح افراد غزہ کی پٹی سے اچانک حملے میں جنوبی اسرائیل میں گھس آئے۔
اسرائیلی میڈیا پر یہ خبریں بھی سامنے آرہی ہیں کہ فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس نے کچھ اسرائیلی باشندوں کو یرغمال بھی بنا لیا ہے۔
خود کو عسکریت پسند گروہ القدس بریگیڈ کا ترجمان ظاہر کرنے والے ابو حمزہ کی جانب سے ٹیلی گرام پر جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اْن کے جنگجوؤں نے ’متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔‘
یورپی ڈیپلومیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی خبروں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ بین القوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور یرغمال بنائے جانے والوں کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔‘
یروشلم میں بی بی سی کے مشرق وسطی کے بیورو کے سربراہ جو فلوٹو کا کہنا ہے یہ بہت سے اسرائیلیوں کے لئے ایک ڈراؤنا منظر نامہ ہے۔ ’ہم سمجھتے ہیں کہ حماس نے فوجی اور سویلین دونوں طرح کے درجنوں افراد کو یرغمال بنایا ہے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ لوگ غزہ کی پٹی کے قریب کچھ چھوٹے قصبوں میں چھپے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو جنھیں ہم جانتے ہیں کہ انھیں غزہ لے جایا گیا ہے۔ یہ ایک غیر معمولی صورتحال ہے۔‘
بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بیکر کے مطابق فلسطینی عسکریت پسندوں نے متعدد فوجی چوکیوں پر حملہ کیا۔
سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی ویڈیوز میں عسکریت پسندوں کو ایک نامعلوم اڈے کے اندر دکھایا گیا ہے، جس میں مرکاوا ٹینک (اسرائیل کی بری فوج میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والا ٹینک) سمیت اسرائیلی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا ہے۔
فلسطینی عسکریت پسند گروہ ماضی میں یرغمالیوں کو اسرائیل کے زیر قبضہ عسکریت پسندوں کی رہائی کے لیے سودے بازی کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔
اسرائیل نے سنہ ۲۰۱۱ میں ایک ہزار سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کر کے اپنے فوجی ’گلاد شیلت‘ کی رہائی کو یقینی بنایا تھا۔ تقریبا ۲۰۰؍ افراد کو اسرائیل کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی یا حملے کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے گروپ ’بی سیلیم‘ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جون میں ۴۴۹۹ فلسطینی جیلوں میں قید تھے۔ ان میں غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے ۱۸۳؍ افراد بھی شامل تھے۔
اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے راکٹ حملوں کے جواب میں غزہ میں حماس کے اہداف پر جوابی فضائی حملے کیے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘ اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’ایک سنگین غلطی‘ کی ہے اور یہ کہ ’اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘۔
دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان کے عوام کو ’آبادکاروں اور قابض فوجیوں کی دہشت‘ کے خلاف اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔
ان کا کہنا تھا ’ہمارے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت‘ ہے۔ انھوں نے فلسطینی عوام کے اس حق پر زور دیا کہ وہ آبادکاروں کی ’دہشت گردی اور قابض افواج‘ کے خلاف اپنا دفاع کریں۔