نئی دہلی/23ستمبر
آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی دو یو ٹی میں تقسیم کو چیلنج کرنے والے معاملے پر سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے رضامندی ظاہر کی ہے۔
س±پریم کورٹ نے دسہرہ تعطیل کے بعد سماعت کے لیے معاملے کو فہرست میں درج کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا کہ ’ہم یقینی طور پر اس کی فہرست بنائیں گے‘۔
اس سال 25 اپریل کو، اُس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں ایک بنچ نے موسم گرما کی تعطیلات کے بعد آرٹیکل 370 کی دفعات کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر غور کرنے پر اتفاق کیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کو دسہرہ کی تعطیلات کے بعد درخواستوں کی سماعت کے لیے ایک پانچ ججوں کی بنچ کو دوبارہ تشکیل دینا پڑے گا کیونکہ سابق سی جے آئی رمنا اور جسٹس آر سبھاش ریڈی جو اس پانچ ججوں کی بنچ کا حصہ تھے اور جنہوں نے ان درخواستوں کی سماعت کی تھی ریٹائرڈ ہو گئے ہیں۔
آرٹیکل 370 اور جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کی دفعات کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستیں، جس نے جموں و کشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا تھا، کو 2019 میں اس وقت کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے جسٹس رمنا کی سربراہی میں ایک آئینی بنچ کے پاس بھیجا تھا۔
آرٹیکل 370 کو ختم کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو منسوخ کر دیا۔
این جی او، پیپلز یونین آف سول لبرٹیز (پی یو سی ایل)، جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، اور ایک مداخلت کار نے اس معاملے کو بڑی بنچ کے پاس اس بنیاد پر بھیجنے کی مانگ کی تھی کہ عدالت عظمیٰ کے دو فیصلے‘ پریم ناتھ کول بمقابلہ جموں و کشمیر۔ 1959 اور سمپت پرکاش بمقابلہ جموں و کشمیر 1970 – جو آرٹیکل 370 کے معاملے سے نمٹتے تھے ایک دوسرے سے متصادم تھے اور اس وجہ سے پانچ ججوں کی موجودہ بنچ اس معاملے کی سماعت نہیں کر سکی۔
عرضی گزاروں سے اختلاف کرتے ہوئے بنچ نے کہا تھا کہ اس کی رائے ہے کہ ”فیصلوں کے درمیان کوئی تضاد نہیں ہے“۔