تحریر:ہارون رشید شاہ
دفتر کی کھڑکی سے باہرجھانک کر سڑک پر نظر پڑی تو وہاں سے موٹر سائیکل سواروں کا ایک کاروان گزرتا ہوا دیکھا … ہر موٹر سائیکل پر دو افراد سوار تھے … کسی کے ہاتھ میں قومی پرچم لہرا رہا تھا تو… تو کوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کاجھنڈا تھامے ’وندے ماترم‘ کے علاوہ ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے نعرے لگا رہا تھا … اس سے پہلے لالچوک کے گھنٹے گھر پر ایک تقریب بھی ہو ئی جس کیلئے اس علاقے کو کچھ گھنٹوں کیلئے سیل کردیا گیا تھا… یہ تقریب بی جے پی کی تھی جس میںکئی لیڈران نے شرکت کی۔بی جے پی کے جنرل سیکریٹری‘ ترون چگھ نے موٹر سائیکل سواروں کے اس قافلے کو گھنٹہ گھر سے کرگل روانہ کردیا ۔دفتر میں میرے ایک دیرینہ دوست بیٹھے تھے… جن کی کشمیر کے حالات و واقعات پر نظریںجمی رہتی ہیں… یہ سب دیکھ کر دوست کچھ دیر کیلئے کسی سوچ میں ڈوب گیا اور پھر دھیمی آواز میں کہنے لگا …’کشمیر سچ میں بدل گیا ہے‘…اس سے پہلے کہ ہم اس کی بات کا کوئی جواب دیتے اس نے ہم سے کہا’کیا تم بھی مانتے ہو کہ کشمیر بدل گیا ہے؟‘… سچ پو چھئے تو سننے میں جتنا آسان لگتا ہے…سوال اتنا آسان نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے… اور جو سوال آسان نہ ہو… اس کا یہی مطلب ہوا کہ اس کا جواب پیچیدہ ہوگا… اس کا جواب پیچیدہ ہے… اور دوست کے اس سوال کا جواب بھی تھوڑا پیچیدہ ہے… کشمیر بدل گیا ہے یا نہیں یہ اس بات پر منحصر ہے کہ کیا لوگوں نے اس’بدلاؤ‘ کو قبول کیا ہے یا نہیں … اور… اور ہاں اس بات پر بھی کہ کیا لوگوں کی زندگی میں کوئی بدلاؤ آیا ہے یا نہیں… اگر لوگوں کی زندگی میں واقعی میںکوئی بدلاؤ آیا ہے اور… اور یہ بدلاؤ ان کی بہتری کیلئے آیا ہے… ایسا بدلاؤ جس کو لوگ محسوس کررہے ہیں تو… تو پھر یقینا کشمیر بدل گیا ہے… کشمیر میں بدلاؤ آگیا ہے… اگر نہیں تو … تو لالچوک کی سڑکوں سے قومی پرچم ہاتھ میں تھامے ہو ئے اور… اور’وندے ماترم‘ اور ’بھارت ماتا کی جئے‘ کے نعرے لگائے ہو ئے موٹر سائیکلوں کا گزرتا ہوا قافلہ کسی سیاسی جماعت کیلئے کوئی معنی رکھتا ہو اور ہمیں یقین ہے کہ اس کیلئے واقعی میں یہ کوئی معنی رکھتا ہے… لیکن کشمیر کیلئے نہیں … بالکل بھی نہیں ۔ شاید ۔ ہے نا؟