ابھی چند روز قبل پردیش کا نگریس کے صدر جی اے میر نے یہ دعویٰ کیا کہ جب بھی الیکشن ہوں گے ان کی پارٹی کو عوام کی بھاری اکثریت حاصل ہوگی اور اگلی حکومت ان کی پارٹی کی ہوگی۔ ویسے بھی جموںوکشمیر کی کئی دوسری پارٹیاں بھی ایسے ہی دعویٰ کررہی ہیں،تاہم الیکشن کے نتیجہ میں جموںوکشمیر کا سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا مشکل ہے۔
البتہ ملکی سیاسی تناظرمیں بات کی جائے تو پردیش کانگریس کے صدر اور دوسرے ذمہ داروں کے یہ دعویٰ کچھ مضحکہ خیز محسوس ہورہے ہیں۔ خاص کر اس مخصوص پس منظرمیں کہ جہاں ملکی سطح پر کانگریس کی ساکھ گرتی جارہی ہے اور اس کا صفایا تقریباً اپنے منطقی انجام کی دہلیز پر دستک دے رہا ہے جبکہ جموں وکشمیرکے مخصوص سیاسی تناظرمیں دیکھاجائے تو کہاجاسکتا ہے کہ کانگریس بلاغیرے شرکت ۱۹۵۲ء سے ۱۹۷۵ء تک برسراقتدار رہی لیکن اقتدار کی یہ لمبی اننگز فراڈ الیکشنوں ، حکومتی دھونس دبائو ، بیلٹ بکسوں کی رات کے اندھیروں میں تبدیلی، انتظامیہ کے کلیدی عہدوں پر فائز بعض کورپٹ بیروکریٹوں کی معاونت اور دوسرے اوچھے ہتھکنڈوں کی مرہون منت ہی قرار دی جاسکتی ہے۔
کانگریس اور اس کی اُس دور کی مرکزی اور ریاستی قیادت نے جموںوکشمیر میںجمہوریت کا بھی جنازہ نکال دیا اور الیکشن پراسیس کے حوالہ سے بدعنوانیوں اور فراڈ کا راستہ اختیار کرکے جمہوری طرز نظام اور سیاسی نظریات پر سے کشمیر کے بھروسہ اور اعتماد کو زک پہنچادیا۔ اپنی ان حماقتوں اور سیاسی لن ترانیوں کے منفی اثرات اور عوام کے ذہنوں پر مرتب ہوتے جارہے رجحانات کے حوالہ سے سیاسی اور انتظامی نقصانات کا کچھ حد تک احساس ہوتے اندرا گاندھی نے شیخ عبداللہ کے ساتھ اقتدار کی واپسی کا راستہ اختیار تو کیا لیکن کانگریس کی قیاد ت کے ایک حصے نے مفتی محمدسعید اور گردھاری لال ڈوگرہ کی معیت میں سید میر قاسم کی اقتدار کی قربانیوں کو خا ک نشین کرکے شیخ محمدعبداللہ کو تفویض کیاگیا اعتماد واپس لے کر ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دیا۔ یہ دوسری بات ہے کہ شیخ محمدعبداللہ کو کانگریس کی اس ایک اور سیاسی لن ترانی کا فائدہ ہوا اور وہ بھر پور منڈیٹ کے ساتھ واپس اقتدار پر بحال ہوئے۔
بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو کانگریس کو جموںوکشمیر کے عوام میںکسی بھی دور میں سند قبولیت اور منڈیٹ حاصل نہیں ہوسکا، وہ اقتدار میں رہی لیکن کبھی این سی اور کبھی پی ڈی پی کی بیساکھیوں کے سہارے۔ تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کانگریس کی مرکزی قیادت نے جموںوکشمیر میںاپنے مخصوص سیاسی اور بدعنوان اہداف کی تکمیل کی خاطر جمہوریت اور الیکشن پراسیس کا جنازہ نکالنے کا راستہ اختیار نہ کیاہوتا تو جموں وکشمیر اُس بھنور اور دلدل میں نہ دھنس جاتا جس میں اس کو دکھیلنے کیلئے ۱۹۸۷ء کے الیکشن فراڑ کا سہارا لیاگیا۔
اسی سیاسی مہم بازی نے جموں وکشمیر میں عسکریت کو جنم دیا جو اب گذرے زائد از تیس سالوں سے مختلف صورتوں میں جلوہ گر جموںوکشمیر باالخصوص کشمیرکو لہو رنگ کرتی جارہی ہے۔ کیا یہ بھی کوئی راز ہے کہ جو نوجوان یا جو لوگ اُس وقت الیکشن میدان میں تھے یا بطور الیکشن ایجنٹ کام کررہے تھے اُس وقت کی سول اور خاکی ایجنسیوں کی وساطت سے انہیں تخت مشق بنایاگیا، پولیس تھانوںمیں خود انہیں اوروالدین کوازیت رسانیوں سے ہم کنار کیاگیا، ان کے گھروں تک تاراج کیاگیا اور جیلوں میں بند کرکے اپنے لئے یہ اعلان دُنیا کو سُنا یاگیا کہ’’ عوام نے ایک بار پھر منڈیٹ ہمارے نظریہ اور سیاسی سیٹ اپ پر اپنی سند قبولیت ثبت کی‘‘۔
کانگریس ہائی کمان اور موجودہ یوٹی قیادت کو اپنے اس مخصوص ماضی کے کردار اور بے تکی سیاسی مہم بازیوں کے نتائج اور عوام باالخصوص جموں وکشمیر پر مرتب منفی اثرات کا کچھ احساس کرنا چاہئے اور جموںوکشمیرمیںاگلی سرکار بنانے کے ہوائی قلعوں کی تعمیرات کے خواب دیکھا بند کریں۔ ان خوابوں کو دیکھنے سے پہلے اپنے گھر کو درست حالت میں کرنے کی فکر کرنی چاہئے جو گھر فی الوقت مختلف کانگریسی لیڈروں کی وفاداریوں اور وابستگیوں کے دلدل میں دھنستا جارہاہے۔
ویسے بھی خواب دیکھنا ، چاہئے وہ رات کو سوتے میں دیکھیں یا دن کے اُجالے میں ، گناہ یا جرم نہیں لیکن سرکار بنانے کے خواب کے پیچھے اگر نیت اور ہدف مالی کورپشن، مارل کورپشن، بدعنوانیوں، جذبات اور ارمانوں کے استحصال کرنے، بک آف نالیج ایسے شرانگیز فتنوں کے احیاء نوجوان نسل کو ایجنسیوں کے ذریعے سنگ بازی کے راستے پر ڈالنے ، جمہوری حقوق کی سلبی، قدرتی وسائل کی لوٹ، زمینوں کی بندر بانٹ، ایسے مخصوص معاملات سے ہو تو جموں وکشمیر کے لوگ اب اس فکر اور طرزعمل کے متحمل نہیں ہوسکتے۔
سالہاسال گذرنے کے باوجود اور کرب وابتلا کی زندگی بسرکرنے کے باوصف جموںوکشمیر کے حساس اور سنجیدہ حلقے مسلسل اپنے اس نظریے اور مطالبے پر قائم ہیں کہ کانگریس قیادت کی ۱۹۷۵ء تک کی ہوس اقتدار کے پیچھے عزائم، سیاسی اور انتظامی جرائم کے حوالہ سے وائٹ پیپر کا اجرا کیاجانا چاہئے۔ تاکہ اس پارٹی کا اصلی چہرہ آج کی نوجوان نسل کے سامنے بے نقاب ہوجائے۔ ساتھ ہی ان سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ لیڈر شپ کے رول اور کردار کے حوالہ بھی ہوں جو کانگریس کی ’بی‘ ٹیم کے طور کام کرتے رہے ہیں۔