تحریر:ہارون رشید شاہ
مقرر شعلہ بیان تھا … اور سامعین بھی کم جوشیلے نہیں تھے… مجمع میں ایک ہزار کے آس پاس لوگ موجود تھے جو مقرر کی ہاں میں ہاں ملا رہے تھے … مقرر کا جوش ہر لمحہ بڑھتا ہی جا رہا تھا… سامعین اس کی باتوں کے جواب میں ’ضرور، ضرور‘ کہہ کر اس کے کہے ایک ایک لفظ کی حامی ہی نہیں بھر رہے تھے بلکہ اس کی توثیق بھی کررہے تھے … مجمع میں اچانک خاموش چھا گئی… مقرر نیچے بیٹھ گیا ‘ اس نے پانی کے کچھ گھونٹ پی لئے اور پھر کھڑا ہو گیا اور… اور گرجدار آواز میں کہا’’جس ہاتھ نے تھپڑ رسید کیا ‘ اب وہ ہاتھ سلامت نہیں رہے گا… بالکل بھی نہیں رہے گا … ہم پیا ر کا جواب پیار سے دیں گے اور تشدد کا جواب تشدد سے ‘‘۔مجمع سے ایک بار پھر ’ضرور،ضرور‘ کی صدائیں گونج اٹھیں… مقرر کچھ ایک دن پہلے اُس واقعہ پر اپنا ردعمل ظاہر کررہا تھا جس میں اس کے ایک چاہنے والے ‘ اس کے ایک حامی کو کسی بات کے جواب میں تھپڑ ملا تھا ۔ اس کے چہرے پر تھپڑ کس نے رسید کیا ‘ کیوں کیا ‘ کس بات پر کیا …چلئے آپ کو بتا دیتے ہیں…لیکن ٹھہر جائیے! پہلے یہ جان لیجئے کہ یہ شعلہ بیان مقرر کون تھا؟یہ کوئی سیاستدان نہیں بلکہ ایک مولوی تھا … ایک واعظ ‘ کسی مذہبی گروپ کا سربراہ تھا … جس کے کسی حامی نے کسی دیوبندی مولوی/عالم سے کہا تھاکہ سب دیوبندی کافر ہیں… دیوبندی مولوی/ عالم کو اس بات پر غصہ آگیا‘ وہ آگ بگولہ ہو گیا ‘ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی ‘ وہ حواس باختہ ہو گیا … بجائے اس کے کہ وہ اس جاہل کی اس جاہلانہ بات کا جواب اپنے علم سے دیتا اس نے بھرے مجمع میں اس شخص کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا … اور اس تھپڑ کی ٹیس یہ شعلہ بیان مقرر اب بھی محسوس کررہا تھا جس نے بھرے مجمع میں انتہائی سخت لہجے میں کہا’’اب وہ ہاتھ سلامت نہیں رہے گا‘‘… کون سا ہاتھ … اُس دیوبندی مولوی / عالم کا جس نے اس کے حامی کے چہرے پر تھپڑ سید کیا۔……اس کے آگے ہم کچھ نہیں کہیں گے … بالکل بھی نہیں کہیں گے کیونکہ اس کے آگے کچھ اور کہنے کی کوئی گنجائش ہے اور… اور نہ ضرورت ۔سوائے اس ایک بات کے کہ… کہ آخر ہم سب کو کیا ہو گیا ہے ‘ ہم کیا بنتے جا رہے ہیں… ہم اپنے معاشرے کو کس سمت میں لے جا رہے ہیں…تباہی اور بربادی کی اور ؟… شاید۔ ہے نا؟