تحریر:ہارون رشید شاہ
صاحب یہ تو محض رسم پوری ہے ورنہ کون کمبخت نہیں جانتا ہے کہ … کہ بی جے پی کے صدر اور نائب صدر امیدواروں کی جیت یقینی ہے … ان کی جیت اسی وقت ہو گئی تھی … یہ دونوں اسی وقت ملک ہند کے صدر اور نائب صدر بن گئے تھے جب بی جے پی نے ان کے ناموں کا اعلان کیاتھا … یا بی جے پی نے انہیں اپنے امیدواروں کے طور پر سامنے لانے کا فیصلہ کیاتھا … پیر کو صدارتی انتخابات کے تحت ووٹ تو ڈالے گئے … لیکن … لیکن ‘ نتیجہ کیا ہو گا وہ پہلا ووٹ پڑنے سے بھی پہلے طے تھا … بس اب اگر کسی بات کی دیر ہے تو… تو وہ ان کے حلف اٹھانے کی ‘ کسی اور کی نہیں … بالکل بھی ۔یشونت سنہا صاحب کی جرأت کو سلام پیش کرتے ہیں … جو جانتے تھے اور… اور پہلے دن سے جانتے تھے کہ ان کی ہار یقینی ہے… لیکن وہ پھر بھی اپوزیشن کے امیدوار بننے پر راضی ہو گئے اور… اور اپنے حق میں انتخابی مہم بھی چلائی … اور خوب چلائی ‘ حتیٰ کہ ملک کشمیر کا دور ہ بھی کیا اور… اور یہاں آکر’ مسئلہ‘ کشمیر کے دائمی حل کی بات بھی کہہ گئے … اور کشمیر میں آکر ایسی بات کہنے کیلئے واقعی اب جرأت ہونی چاہئے جس کا مظاہرہ سنہا نے کیا … ہمیں یقین ہے کہ یہ جرأت انہیں صداتی انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے ‘ قبول کرنے میں بھی مدد دے گی اور… اور اس لئے دے گی کیونکہ سنہا صاحب جانتے ہیں کہ نتائج کیا ہوں گے ۔خیر !صدر اور نائب صدر کے انتخابات کے دوران کئی نام سامنے آگئے جن میں ایک نام مختار عباس نقوی کا بھی تھا… کسی نے کہا کہ انہیں ملک کشمیر کا ایل جی بنایا جارہا ہے… کسی کی رائے تھی کہ یہ جناب بی جے پی کے نائب صدر کے امیدوار ہوں گے … لیکن … لیکن نقوی صاحب نائب صدرکے امیدوار بن پائے اور… اور نہ انہیں ملک کشمیر کا ایل جی بنایا گیا… لیکن… لیکن صاحب ہم انہیں ایک ہی بات کہنا چاہتے ہیں اور… اور سو فیصد کہنا چاہتے ہیں اوہ وہ بات یہ ہے کہ انہیں نا امید نہیں ہو نا چاہئے … انہیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے اور… اور اس لئے نہیں ہارنی چاہئے کہ ملک کشمیر میں افواہیں یوں ہی نہیں اڑتی ہیں… ان کی پس پردہ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہو تی ہے … جو ان افواہوں کو صحیح ثابت کر دیتی ہے۔ نقوی صاحب !آج نہیں تو کل … کل نہیں تو پرسوں … پرسوں نہیں تو … تو امر ناتھ یاترا کے بعد۔ہے نا؟