جموں/۱۵ جولائی
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلی مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید۱ ۵ جولائی کو سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت میں اپنے۱۹۸۹کے اغوا سے متعلق ایک معاملے میں پیش ہوئیں اور جے کے ایل ایف کے سربراہ یاسین ملک اور دیگر تین افراد کو ان کے اغوا کاروں کے طور پر شناخت کی۔
جموں کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور سابق مرکزی وزیر داخلہ مفتی سعید کی بیٹی روبیہ سعید جمعہ کو اپنے وکیل ایڈوکیٹ انل سیٹھی کے ساتھ جموں کی خصوصی سی بی آئی کورٹ میں حاضر ہوئیں۔
روبیہ کو۱۹۸۹ میں سرینگر کے بالائی علاقے سے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے عسکریت پسندوں کی جانب سے اغوا کئے جانے سے متعلق درج کیس میں بطور گوا ہ طلب کیا گیا تھا۔
سی بی آئی کی وکیل مونیکا کوہلی کے مطابق اغوا کیس میں روبیہ سعید نے تہاڑ جیل میں مقید لبریشن فرنٹ کے سربراہ یاسین ملک سمیت تمام اغوا کاروں کی شناخت کر لی ہے۔سماعت کی اگلی تاریخ ۲۳ اگست ہے۔ انہوں نے کل۴ ملزمین کی شناخت کی ہے۔
ایڈووکیٹ انل سیٹھی سے جب پوچھا گیا ”کیا روبیہ سعید نے یاسین ملک سمیت تمام اغوا کاروں کی شناخت کی ہے؟ انل سیٹھی نے بتایا کہ جی ہاں، پی ڈی پی سربراہ محبوبہ مفتی کی بہن روبیہ سعید سی بی آئی کی تحقیقات کے دوران انہیں دستیاب تصاویر کی بنیاد پر ہر کسی کی شناخت کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔
واضح رہے کہ دو روز قبل کالعدم تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر محمد یاسین ملِک نے جموں کی ایک خصوصی عدلت سے روبیہ سعید معاملے میں عدالت میں خود گواہوں سے جرح کرنے کی گزارش کی تھی۔
عدالت کے ایک سےنئر آفیسر کے مطابق ”یاسین ملِک نے گزارش کی ہے کہ وہ جموں عدالت میں ذاتی طور پر حاضر ہو کر جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کے اغوا معاملے میں گواہوں سے جرح کریں گے اور اگر ا±ن کو اجازت نہیں دی گئی تو وہ غیر معینہ مدت تک بھوک ہڑتال پر بیٹھ جائیں گے۔ یاسین ملک نے اس حوالے سے مرکزی حکومت کو بھی خط لکھا ہے“۔
جس وقت اغوا کا یہ واقعہ سامنے آیا تھا، اسوقت مفتی محمد سعید مرکز میں وزیر داخلہ تھے اور آزادی کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا جب بھارت میں کسی مسلمان کو یہ عہدہ دیا گیا تھا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ساتھ شریک وی پی سنگھ کی مخلوط جنتا دل حکومت کیلئے روبیہ سعید کی بازیابی ایک نازک صورتحال تھی۔جموں و کشمیر میں اسوقت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس کی حکومت قائم تھی جو روبیہ سعید کی رہائی کے بدلے پانچ عسکریت پسندوں کو چھوڑنے کی مخالفت کررہی تھی۔
روبیہ سعید ایک منی بس میں سرینگر کے میڈیکل کالج سے اپنی رہائش گاہ نوگام کی جانب جارہی تھی جب عسکریت پسندوں نے انہیں حیدر پورہ کے قریب بندوق کی نوک پر اغوا کیا۔ انہیں ایک ماروتی کار میں سوار کرکے سوپور پہنچادیا گیا تھا۔ روبیہ سعید اسوقت ایم بی بی ایس کی تعلیم حاصل کررہی تھیں اور وزیر داخلہ کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ مسافر بس مین سفر کررہی تھیں اور انہیں کوئی سیکیورٹی نہیں دی گئی تھی۔
سےنئر آفیسر نے مزید کہا ”یاسین ملک ویڈیو کانفرنس کے ذریعے عدالت میں آج پیش ہوئے تھے“۔
واضح رہے کہ یہ مقدمہ۸ دسمبر۱۹۸۹ کے روبیہ سعید کے اغوا سے متعلق ہے۔ روبیہ سعید کے اغوا کے پانچ روز بعد ۳۱ دسمبر کو اس وقت کی وی پی سنگھ حکومت نے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے پانچ عسکریت پسندوں کو ان کی رہائی کے بدلے میں رہا کیا تھا۔
یاسین ملک کو۲۰۱۹ میں ٹیرر فنڈنگ کے الزام میں قومی تحقیقاتی ایجنسی کے ذریعہ گرفتار کیے جانے کے بعد یہ معاملہ دوبارہ منظر عام پر آگیا تھا۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس جنوری میں سی بی آئی نے خصوصی پبلک پراسیکیوٹرز مونیکا کوہلی اور ایس کے بٹ کی مدد سے روبیہ سعیدا غوا معاملے میں یاسین ملک سمیت۰۱ لوگوں کے خلاف الزامات طے کیے تھے۔
قابل ذکر ہے کہ ٹیرر فنڈنگ کیس میں قصوروار کشمیر کے علےحدگی پسند لیڈر یاسین ملِک کو این آئی اے کورٹ نے ۲۵ مئی کو سزا سنائی ہے۔ کورٹ نے یاسین ملک کو دو مقدمات میں عمر قید کی سزا کے علاوہ ۱۰ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ہے۔
واضح رہے کہ روبیہ سعید کی رہائی کے عوض پانچ علیحدگی پسندوں کو رہا کرنے کے بعد سرینگر میں جشن کا ماحول پیدا ہوگیا تھا۔ ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر آکر عسکریت پسندوں کی اس’کامیابی‘ پر نعرے لگائے تھے۔
فاروق عبداللہ نے بعد میں انٹرویوز میں کہا کہ انہوں نے مرکزی حکومت کو خبردار کیا تھا کہ عسکریت پسندوں کی رہائی سے انکے حوصلے بلند ہوجائیں گے۔ اس واقعے کے بعد ہونیوالی متعدد سیاسی تبدیلیوں کے بعد فاروق عبداللہ نے اپنے عہدے سے استعفیٰ …