سرینگر//
جموں کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے یوٹی انتظامیہ پر۱۵ لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا۔
یہ جرمانہ اس لیے عائد کیا گیا کیونکہ انتظامیہ نے قانون کے مناسب طریقہ کار پر عمل کیے بغیر ایک نجی زمین پر زبردستی قبضہ کیا تھا۔
چیف جسٹس پنکج متھل اور جسٹس جاوید اقبال وانی پر مشتمل ڈویڑن بنچ نے سماعت کے بعد کیا ’’یہ اچھی طرح سے تسلیم کیا گیا ہے کہ جائیداد کا حق ایک بنیادی انسانی حق ہے جس کی ضمانت بھارت کے آئین کے دفعہ۳۰۰؍ اے میں دی گئی ہے اور کوئی قانونی طریقہ کار پر عمل کیے بغیر، کسی کی بھی جائیداد پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا ہے‘‘۔
عدالت نے انتظامیہ کو ۲۰۱۷ سے ۲۰۲۱ تک مذکورہ اراضی کے استعمال اور قبضے کے لیے ٹوکن رینٹل معاوضہ (ہر سال کا ایک لاکھ روپے) ادا کرنے کی بھی ہدایت دی، جس کا مطلب انتظامیہ کو آئندہ تین ماہ کے اندر پانچ سال کا معاوضہ (پانچ لاکھ روپے) ادا کرنا ہوگا۔
عدالت کا کہنا تھا ’’چونکہ درخواست گزار کے جائیداد کے حق کی خلاف ورزی کی گئی ہے، اس لیے جواب دہندگان کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ درخواست گزار کو تین ماہ کی مدت میں دس لاکھ روپے بطور خصوصی جرمانہ ادا کریں۔ اس کے مزید انتظامیہ کو اسٹیمپ ڈیوٹی کے مطابق آئندہ ۶ ہفتوں میں درخواست گزار کو معاوضہ ادا کرنا ہوگا‘‘۔
عدالت کا مزید کہنا ہے ’’اگر مذکورہ رقم مقررہ وقت کے اندر ادا نہیں کی گئی، درخواست گزار عدالت سے دوبارہ رجوع کر سکتا ہے، جس کے بعد عدالت حرکت میں آئے گی اور جواب دہندگان کے خلاف مناسب جبری اقدامات کرے گی تاکہ مذکورہ رقم کی وصولی کی جا سکے‘‘۔
واضح رہے کہ درخواست گزار کا مخصوص الزام یہ تھا کہ ۲۰۱۷ میں آر اینڈ بی ڈپارٹمنٹ نے بانڈی پورہ کے زلپورہ سلطان پورہ سنبل میں’اسٹیل گرڈر برج‘کی تعمیر کے لیے اس کی زمین پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم کسی قانونی ضابطے کے بغیر مذکورہ اراضی پر قبضہ کر لیا گیا تھا۔ درخواست گزار نے دعویٰ کیا کہ جب سے انتظامیہ نے اس کی زمین پر قبضہ کیا ہے تب سے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا گیا ہے۔