سرینگر//
ایران میں جاری کشیدگی کے پیش نظر وہاں زیر تعلیم کشمیری طلبا کے انخلا کے سلسلے میں پہلا گروپ آج بحفاظت وطن واپس پہنچ گیا۔
اس گروپ میں۹کشمیری طلبا شامل ہیں جن میں سرینگر سے تعلق رکھنے والی ایم بی بی ایس کی طالبہ صباء رسول بھی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق، یہ طلبا کئی روز سے ایران کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے تھے اور بھارت کی وزارتِ خارجہ کی کوششوں سے انہیں ایران سے نکال کر دہلی کے راستے کشمیر منتقل کیا گیا۔
وطن واپسی پر صباء رسول نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا’’ہم نے مشکل وقت گزارا، لیکن ہمیں یقین تھا کہ حکومت ہماری مدد کرے گی۔ ہم دل سے شکر گزار ہیں کہ بالآخر ہم اپنے گھروں کو واپس آ سکے ‘‘۔
ایک اور طالبعلم یوسف نذیر نے بھی اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا’’ان دنوں میں ہم نے صرف ایک ہی چیز چاہی:اپنے گھر کی زمین پر قدم رکھنا۔ الحمدللہ، یہ ممکن ہو پایا‘‘۔
طلبا کے اہل خانہ نے ان کی بحفاظت واپسی پر راحت کا اظہار کیا ہے اور حکومت ہند، وزارت خارجہ، اور جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کیا ہے جنہوں نے مسلسل رابطے میں رہ کر انخلا کو ممکن بنایا۔
یاد رہے کہ ایران میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کی مجموعی تعداد ۱۵۰۰سے زائد ہے ، جن کی واپسی کا عمل مرحلہ وار جاری ہے ۔ مزید طلبا کو بھی جلد واپسی کے لیے ترکی، آرمینیا اور ترکمانستان منتقل کیا جا رہا ہے ۔
’’ہم نے آسمان میں میزائل دیکھے اور اپنے پڑوس میں بموں کی آوازیں سنیں‘‘۔
آپریشن سندھو کے تحت جنگ زدہ ایران سے نکالے جانے کے بعد دہلی ہوائی اڈے سے باہر قدم رکھتے ہوئے ایم بی بی ایس کے طالب علم میر خلیفہ نے کہا‘‘۔اس کی آواز اب بھی خوف سے کانپ رہی تھی۔
ایران اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تنازعہ کے جواب میں بھارتی حکومت کی طرف سے شروع کیے گئے خصوصی آپریشن سندھو کے حصے کے طور پر ۱۱۰ ہندوستانی طلبا کو لے کر پہلی انخلا کی پرواز میں جمعرات کی صبح قومی دارالحکومت پہنچے۔
اس ہفتے کے شروع میں ایرانی شہروں میں دھماکوں اور فضائی حملوں کے بعد جموں و کشمیر کے۹۰ طلبا کو تہران سے ارمینیہ منتقل کیا گیا تھا۔
کشمیر سے تعلق رکھنے والے خلیفہ نے ایران کے تجربے کو ایک ڈراؤنا خواب قرار دیا۔ان کاکہنا تھا’’ہم نے میزائل دیکھے اور دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ یہ ایک جنگی علاقہ تھا۔ حملوں کے دوران ہماری عمارت لرز اٹھی۔ مجھے امید ہے کہ کسی بھی طالب علم کو اس کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جو ہم نے کیا ہے‘‘۔
کشمیر کی ایک اور طالبہ نے اس خوف کو یاد کیا جس سے وہ گزری تھی۔ اس کاکہنا تھا’’صورتحال کافی نازک تھی۔ جب ہمارے پڑوس پر حملہ ہوا تو ہم خوفزدہ تھے۔ جب ہندوستانی حکومت ہماری دہلیز پر پہنچی تو ہمیں راحت محسوس ہوئی ‘‘۔انہوں نے ہندوستانی سفارت خانے اور آرمینیائی حکام کا ان کی فوری حمایت کے لیے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
دہلی کے ایک طالب علم علی اکبر نے کہا کہ تباہی ہر جگہ نظر آ رہی تھی۔ ’’ہم نے ایک بس میں سفر کرتے ہوئے ایک میزائل اور ایک ڈرون کو آسمان سے گرتے ہوئے دیکھا۔ تہران کھنڈرات میں ہے۔ خبروں میں موجود تصاویر حقیقی ہیں ، صورتحال بہت خراب ہے‘‘۔
وزیر مملکت برائے امور خارجہ کیرتی وردھن سنگھ طلباء کا استقبال کرنے کے لیے دہلی ہوائی اڈے پر پہنچے۔
بعد میں ، ایکس پر ایک پوسٹ میں ، انہوں نے کہا’’آپریشن سندھو کے حصے کے طور پر ایران سے نکالے گئے۱۱۰ ہندوستانی شہریوں کے پہلے گروپ کا گرمجوشی سے خیرمقدم کیا ، جس نے بیرون ملک اپنے شہریوں کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے لیے ہندوستان کے ثابت قدم عزم کی تصدیق کی‘‘۔
سنگھ نے تصدیق کی کہ آپریشن سندھو کے تحت انخلا کی کوششیں جاری ہیں ، مزید پروازیں طے شدہ ہیں۔ان کاکہنا تھا’’ایک اور طیارہ آج روانہ ہونے کے لیے تیار ہے۔ ہم ترکمانستان سے بھی لوگوں کو نکال رہے ہیں۔ ہمارے مشن۲۴ گھنٹے ہیلپ لائنز چلا رہے ہیں۔ جیسے جیسے صورتحال سامنے آئے گی ، مزید پروازیں آئیں گی ‘‘۔
دہلی ہوائی اڈے پر ، بہت سے والدین بے چینی سے اپنے بچوں کے ساتھ دوبارہ ملنے کا انتظار کر رہے تھے۔
ایم بی بی ایس کے طالب علم ماز حیدر کے والد حیدر علی نے کہا ’’ہم خوش اور شکر گزار ہیں ، لیکن یہ جان کر ہمارے دل اب بھی بھاری ہیں کہ بہت سے طلباء اب بھی تہران میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں بھی واپس لایا جائے‘‘۔
اتر پردیش کے بلند شہر سے تعلق رکھنے والے پرویز عالم ، جن کے بیٹے نے ارمیہ میں تعلیم حاصل کی ، نے کہا’’ہم مسلسل تناؤ میں تھے۔ طلباء کو ارمینیہ منتقل کر دیا گیا اور ان کی اچھی دیکھ بھال کی گئی۔ ہم اس کے لیے حکومت کا شکریہ ادا کرتے ہیں‘‘۔