بھارت دریائے سندھ کے تین مغربی دریاؤں سے اضافی بہاؤ کو پنجاب، ہریانہ اور راجستھان کی جانب موڑنے کیلئے ۱۱۳ کلومیٹر طویل نہر کی تعمیر کے لیے فزیبلٹی اسٹڈی کر رہا ہے۔
خیال رہے کہ ۱۹۶۰ میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے درمیان ۶ دریاؤں سندھ، جہلم، چناب، راوی، بیاس اور ستلج کے پانی کی تقسیم کا معاہدہ کیا گیا تھا۔
بھارت کا دریائے سندھ کے پانی کا رخ موڑنے کا منصوبہ تین مغربی دریاؤں جہلم، چناب اور سندھ پر مرکوز ہے جو پاکستان کی طرف بہہ رہے ہیں۔ فی الحال ہندوستان ان تین دریاؤں میں بہنے والے پانی کا زیادہ استعمال نہیں کرتا کیونکہ ان کا قدرتی راستہ ایک ایسے راستے پر چلتا ہے جو ہندوستان کیلئے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے۔
این ڈی ٹی وی کی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ منصوبے میں اضافی پانی کو موڑنے کے لیے نئے نہروں کی تعمیر شامل ہے۔ کام ابتدائی مرحلے میں ہے اور ممکنہ رپورٹس تیار کی جا رہی ہیں۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ نہروں کی تعمیر کا کام، جو چناب کو روی،بیاس کو سْتلیج نظام سے جوڑے گا، اگلے تین سالوں میں مکمل ہو جائے گا۔
یہ منصوبہ سندھ کی آبی معاہدے کے تحت بھارت کے حصے کو بہتر استعمال کے ذریعے بہتر بنانے کا مقصد رکھتا ہے، اضافی بہاؤ کو پاکستان میں موڑ کر۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے ہفتہ کے روز مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی تربیتی سیشن کے دوران کہا’’تین سال کے اندرسندھ کے پانی کو راجستھان کے گنگانگر لے جایا جائے گا ۔پاکستان ہر بوند پانی کیلئے ترسے گا ‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ اسے یمنا سے جوڑنے کی بھی تجویز ہے، اگر ایسا ہوتا ہے تو نہر کی لمبائی۲۰۰ کلومیٹر ہوجائے گی۔اس کے بعد یمنا کے راستے گنگا ساگر تک بھی پانی پہنچایا جا سکتا ہے۔
دہلی، ہریانہ، پنجاب اور راجستھان جیسی ریاستوں کو اس اسکیم سے بہت فائدہ ہونے کی توقع ہے۔
کشمیر میں۲۲؍ اپریل کو پہلگام حملے کے بعد قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے ہندوستان نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ اس وقت تک تعطل کا شکار رہے گا جب تک اسلام آباد سرحد پار دہشت گردی کی حمایت بند نہیں کرتا۔
نئی دہلی نے دہشت گردی کے حملے کا الزام پاکستان پر لگایا ہے، جو پاکستان نے مسترد کیا ہے۔ جبکہ بھارت نے آپریشن سندور کے آغاز کے ساتھ، وزیراعظم نریندر مودی نے بار بار حکومت کے غیر متزلزل مؤقف کی وضاحت کی کہ ’پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہ سکتے‘ اور ’دہشت گردی اور بات چیت ایک ہی وقت میں نہیں ہو سکتی‘۔
نئی دہلی نے پچھلے دو سالوں میں کئی مواقع پر اسلام آباد سے معاہدے میں تبدیلیوں پر بات چیت کرنے کی باضابطہ درخواست کی، لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔