سرینگر//
جموں کشمیر میں محکمہ قبائلی امور کے زیرانتظام پوسٹ میٹرک اسکالرشپ اسکیم میں کروڑوں روپے کے مبینہ گھوٹالے کے سلسلے میں انسدادِ بدعنوانی بیورو نے پیر کو سابق ڈائریکٹر اور سات نجی تعلیمی اداروں کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا۔
اے سی بی کے ترجمان کے مطابق یہ فراڈ ۲۰۱۴سے۲۰۱۸کے درمیان عمل میں آیا، جس میں حکومت ہند کی قبائلی طلبہ کے لیے منظور شدہ اسکالرشپ اسکیم کے تحت غیر تسلیم شدہ اداروں کو غیر قانونی طور پر کروڑوں روپے جاری کیے گئے ۔
جن افراد کے خلاف کیس درج کیا گیا ہے ان میں اُس وقت کے ڈائریکٹر ٹرائبل افیئرز ایم ایس چوہدری، شہناز اختر ملک (کیٹلاگ کمپیوٹرز)، ہمیرہ بانو اور فردوس احمد (چراغ انسٹیٹیوٹ آف آئی ٹی)، شام لال ترگوترا (جے کے ایس آئی ٹی آئی) شامل ہیں۔ دیگر نامزد اداروں کے مالکان میں جندر مہلو (آر ایس پورہ)، جعفر حسین وانی (ایور گرین انسٹیٹیوٹ آف کمپیوٹر ٹیکنالوجی)، پرشوتَم بھاردواج (گلوبل انسٹیٹیوٹ آف آئی ٹی)، رمینک کور (پنکج میموریل چیریٹیبل ٹرسٹ)، اور پونیت مہاجن (سوپرٹیک انڈیا کمپیوٹر ایجوکیشن) شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق، اسکالرشپ اسکیم شیڈیولڈ ٹرائب طلبہ کو مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھی تاکہ وہ پوسٹ میٹرک تعلیم مکمل کر سکیں۔ اس اسکیم کے تحت فی طالب علم۱۸ہزارروپے اسکالرشپ اور۲۳۰۰ روپے ماہانہ وظیفہ فراہم کیا جاتا ہے ۔
تاہم تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ جموں میں واقع کئی نجی اداروں نے ایس ٹی طلبہ کی دستاویزات حاصل کر کے انہیں قبائلی امور کے ڈائریکٹوریٹ کو جمع کرایا۔ متعلقہ افسران اور اہلکاروں نے نہ تو اداروں کی منظوری، نہ کورس کی نوعیت، اور نہ ہی انفراسٹرکچر کی جانچ کی، اور کروڑوں روپے براہِ راست ان اداروں کے بینک کھاتوں میں منتقل کر دیے ۔
تحقیقات میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ جن طلبہ کے نام پر ادائیگیاں کی گئیں، اُنہوں نے نہ تو داخلہ لیا تھا اور نہ ہی کمپیوٹر کورس میں شرکت کی۔ کچھ طلبہ نے داخلہ لیا بھی تو وہ کورس میں جزوی شرکت کے بعد غائب ہو گئے ۔ اس کے باوجود اداروں کو مکمل فیس ادا کی گئی۔
اینٹی کرپشن بیورو کے مطابق، ایک ادارے نے اپنی تعداد بڑھانے کے لیے دور دراز علاقوں کے ایس ٹی طلبہ کی دستاویزات حاصل کیں اور اُن کے نام پر اسکالرشپ فارم بھرے ۔ یہاں تک کہ کچھ جعلی بینک اکاؤنٹس ایس ٹی طلبہ کے نام پر ان کی لاعلمی میں کھولے گئے تاکہ مینٹیننس الاؤنس براہِ راست ان اکاؤنٹس میں منتقل کیا جا سکے ۔
ترجمان نے مزید کہا کہ افسران اور اداروں کے مالکان نے اپنے عہدوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ملی بھگت، جعلسازی اور سرکاری قواعد کی کھلی خلاف ورزی کے ذریعے حکومت کے کروڑوں روپے کے فنڈز میں خوردبرد کی، جس سے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچا۔
انہوں نے کہا کہ کیس کی مزید تحقیقات جاری ہے۔