نئی دہلی//
سپریم کورٹ میں نئے وقف ترمیمی ایکٹ کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر آج بھی سماعت ہوئی جس دوران حکومت نے عدالت کو یقین دلایا کہ سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں کسی غیر مسلم کی تقرری نہیں کی جائے گی،جبکہ عدالت نے کہاکہ وقف بائی یوزر جو جائیداد۱۹۹۵ کے قانون کے تحت درج کی گئی ہے اسے چھیڑا نہ جائے ۔
حکومت نے یہ بھی کہا کہ موجودہ وقف املاک پر کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے ابھی تک اس معاملے میں کسی قسم کا التوا یا حکم امتناعی نہیں دیا ہے ۔
حکومت سے اس پورے معاملے میں سات دن کے اندر جواب دینے کو کہا گیا ہے ۔ اس معاملے کی اگلی سماعت اب۵مئی سے شروع ہونے والے ہفتے میں ہوگی۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتاجو مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے ، عدالت کو یقین دلایا کہ وقف ترمیمی ایکٹ ۲۰۲۵کی کچھ دفعات پر فی الحال عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
چیف جسٹس کھنہ نے کہا’’ سماعت کے دوران‘سالیسٹر جنرل نے کہا کہ حکومت سات دن کے اندر اپنا جواب دینا چاہتی ہے ‘‘۔ انہوں نے یہ بھی یقین دلایا کہ وقف کونسل یا بورڈ میں کوئی نئی تقرری نہیں کی جائے گی۔ اگلے احکامات تک، وقف میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی، جس میں وقف بائی یوزربھی شامل ہے ، جو پہلے سے وقف کے تحت رجسٹرڈ ہیں، ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی متعلقہ کلکٹر ان میں کوئی تبدیلی کرے گا ۔ہم یہ بیان ریکارڈ میں درج کرتے ہیں ‘‘۔
سپریم کورٹ نے کل نئے وقف ترمیمی قانون کے خلاف تقریباً۷۳عرضداشتوں پر سماعت کرتے ہوئے کئی نکات پر مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا تھا اور ساتھ ہی کہاتھا کہ وہ اس قانون کی کچھ شقوں پر روک لگاسکتی ہے ۔
یہ امکان ظاہرکیاجارہاتھاکہ عدالت عظمی ،اس سلسلے میں اس قانون کی جوکچھ دفعات ہیں جن میں غیرمسلموں کی سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں نامزدگی اور وقف جائیدادوں کے تعلق سے کلکٹر ز کے رول کے بارے میں جو تنازعات ہیں ،اس پر روک لگاسکتی ہے ۔
عدالت عظمی کی تین رکنی بنچ نے اس سلسلے میں کل کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا تھا اور سماعت آج کے لیے ملتوی کردی تھی ۔دوران سماعت عدالت نے کہا تھاکہ وہ وقف قانون کے بارے میں آرڈر پاس کرسکتی ہے تاکہ اس میں متاثرہ پارٹی کے جوخدشات ہیں انھیں دورکیاجاسکے ۔
عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صدیوں پرانی وقف جائیدادوں کا رجسٹریشن ہو جن میں بہت ساری مساجد اور دوسری تاریخی عبادت گاہیں شامل ہیں ۔
سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ کیاوہ ہندوؤں کی عبادت گاہوں اور ٹرسٹوں میں غیر ہندوؤں کو نمائندگی دیں گے ۔چیف جسٹس نے تشار مہتہ سے پوچھا تھا کہ کیا مسلمان ہندوٹرسٹ کے ممبر بن سکتے ہیں ۔
اس سے قبل عرضی گزاروں کی پیروی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کوبتایا’’وقف ایک مذہبی معاملہ ہے اور یہ اسلام کی روح سے وابستہ ہے ‘‘۔انھوں نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون غیر آئینی اور مسلمانوں کے مذہبی امو رمیں سراسر مداخلت ہے ۔انھوں نے عدالت میں دلیل دی کہ دیگر طبقات کے مذہبی اداروں میں مسلمانوں کی شرکت نہیں توپھر مسلمانوں کے اوقاف میں غیرمسلم ممبران کی موجودگی ضروری کیوں قراردی گئی ۔کلکٹر کوجج کا اختیار کیوں دیاگیا اور وہ اپنے ہی مقدمہ کا فیصلہ کیسے کریگا۔
یہ امکان ظاہرکیاجارہاتھاکہ عدالت عظمی ،اس سلسلے میں اس قانون کی جوکچھ دفعات ہیں جن میں غیرمسلموں کی سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ میں نامزدگی اور وقف جائیدادوں کے تعلق سے کلکٹر ز کے رول کے بارے میں جو تنازعات ہیں ،اس پر روک لگاسکتی ہے ۔
عدالت عظمی کی تین رکنی بنچ نے اس سلسلے میں کل کوئی حکم امتناعی جاری نہیں کیا تھا اور سماعت آج کے لیے ملتوی کردی تھی ۔دوران سماعت عدالت نے کہا تھاکہ وہ وقف قانون کے بارے میں آرڈر پاس کرسکتی ہے تاکہ اس میں متاثرہ پارٹی کے جوخدشات ہیں انھیں دورکیاجاسکے ۔
عدالت نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا تھاکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ صدیوں پرانی وقف جائیدادوں کا رجسٹریشن ہو جن میں بہت ساری مساجد اور دوسری تاریخی عبادت گاہیں شامل ہیں ۔
سماعت کے دوران عدالت نے مرکزی حکومت کے وکیل سے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ کیاوہ ہندوؤں کی عبادت گاہوں اور ٹرسٹوں میں غیر ہندوؤں کو نمائندگی دیں گے ۔چیف جسٹس نے تشار مہتہ سے پوچھا تھا کہ کیا مسلمان ہندوٹرسٹ کے ممبر بن سکتے ہیں ۔
اس سے قبل عرضی گزاروں کی پیروی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت کوبتایاکہ‘‘ وقف ایک مذہبی معاملہ ہے اور یہ اسلام کی روح سے وابستہ ہے ۔انھوں نے کہاکہ وقف ترمیمی قانون غیر آئینی اور مسلمانوں کے مذہبی امو رمیں سراسر مداخلت ہے ۔انھوں نے عدالت میں دلیل دی کہ دیگر طبقات کے مذہبی اداروں میں مسلمانوں کی شرکت نہیں توپھر مسلمانوں اوقاف میں غیرمسلم ممبران کی موجودگی ضروری کیوں قراردی گئی ۔کلکٹر کوجج کا اختیار کیوں دیاگیا اور وہ اپنے ہی مقدمہ کا فیصلہ کیسے کریگا۔‘‘